ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
اَمان دے کر واپس بلایا اور اُس کو اُس کا پرانا منصب عطا کیا۔'' (مقریزی ج ١ ص ٤٩٣ ، اَلفاروق ج ٢ ص ١٤٢۔ ١٤١) '' مصر ہی کے فتح کے موقع پر حضرت عمرو بن العاص نے لڑائیوں کی تلخیاں دِ ل سے بھلا دیں، جب وہاں کے عیسائیوں نے اُن کواپنے یہاں مدعو کیا تو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ دعوت میں شریک ہوئے اور پھر اُن کو اپنے یہاں جوابی دعوت میں مدعو کیا۔'' (اَلفاروق ج ١ ص ١٢٠) ''٢١ھ میں اِسکندریہ فتح ہوا تو وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک تصویر کی ایک آنکھ کو اِسلامی فوج کے کسی لشکری نے اپنے تیر سے پھوڑ ڈالا، عیسائیوں کو سخت تکلیف ہوئی، اُنہوں نے حضرت عمرو بن العاص کے پاس پہنچ کر یہ مطالبہ کیا کہ پیغمبر اِسلام کی تصویربنا کر اُن کو دی جائے تاکہ وہ بھی اُس کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالیں۔ حضرت عمرو بن العاص نے جواب دیا تصویر دینے کی کیا ضرورت ہے ہم لوگ موجود ہیں تم جس کی آنکھ چاہو پھوڑ ڈالو، پھر اپنا خنجر ایک عیسائی کے ہاتھ میں دے کر اپنی آنکھیں سامنے کردیں، یہ سن کر عیسائی کے ہاتھ سے خنجرگر پڑا ، اپنے دعوی سے یہ کہہ کر باز آیا کہ جو قوم اِس درجہ دلیر، فیاض اور بے تعصب ہو اُس سے اِنتقام لینا سخت بے رحمی اور بے قدری ہے۔ یہ واقعہ مصر کے ایک عیسائی بشپ سعید بن البطریق نے اپنی تاریخ ِ مصر میں لکھا ہے جوچھپ چکی ہے، یہ مصنف ٤٨ھ میں موجود تھا، اِس واقعہ کومولانا شبلی نے جنوری ١٩٠٣ء کی اَیجو کیشنل کانفرنس کے خطبہ ٔ صدارت میں بھی بیان کیا تھا۔(خطبات ِشبلی ص ٧٤،٧٣) ۔'' ١ ١ اِسلام میں مذہبی رواداری ص ١٠١