ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
حالت کو ذکر کیا تو پتہ چلا کہ یہ طالب علم کسی دُوسرے شہرکا رہائشی ہے ،یہاں اِس نے کالج میں داخلہ لیا ہے اور ایک کمیو نسٹ پروفیسرصاحب اِس کو مفت ٹیوشن پڑھاتے ہیں ۔فرقہ واریت کا کردار اِس پروفیسر کی تربیت کا نتیجہ ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ مذکورہ پروفیسر کئی نوجوانوں کواِسلام اور علما ئِ اِسلام سے بدظن کرکے گمراہ کر چکا ہے۔ بہاولپور میں پروفیسر عبداللہ صاحب گزرے ہیں وہ فرقہ واریت پیدا کرنے کی ایک مشین تھی موصوف سرکاری ملازم ہونے کے باوجود فرقہ واریت پر مبنی تبلیغی دورے کرتے، فرقہ وارانہ تقریریں کرتے اور مناظرے کرتے ،فرقہ واریت کے شاہکار مختلف رسالے لکھتے اور چھپوا کرمفت تقسیم کرتے لیکن اپنی ملازمت کے تحفظ کے لیے نام ظاہر نہ کرتے لیکن اُن کی وفات کے بعد پروفیسر عبدالغفار صاحب نے اُن سب رسائل کا مجموعہ پروفیسر عبداللہ کے نام سے شائع کیا ہے نیز وہ اپنی کلاس میں فرقہ وارانہ مسائل پر کھل کر طلباء کی ذہن سازی کرتے ۔ مزید فرقہ پھیلانے اور طلباء میں فرقہ واریت کا زہر بھرنے کے لیے موصوف نے ایک پرائیویٹ عبداللہ ہال بنا رکھا تھا جہاں کالج کے طلباء کو اپنے پاس رکھ کر اُن کو فرقہ واریت کے لیے تیار کرتے چنانچہ موصوف کے شاگرد جہاں جہاں پہنچے ہوئے ہیں وہ وہاں اپنے اُستاذ کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے اِسی طرح فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں۔ سکول ،کالج، یونیورسٹی اور دیگر سرکاری اِداروں میں فرقہ واریت پھیلانے کے سینکڑوں واقعات ہیں اگر وہ سب لکھے جائیں تو داستان طویل ہو جائے گی پس وہ جدید محققین جو ایک طرف فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہیں اور علما ء کو فرقہ واریت کے حوالہ سے بدنام کرتے ہیں ،بدنام کرکے اپنی محفلوں کی رونق بڑھاتے ہیں تو دُوسری طرف کتاب وسنت کی جدید تشریح کرکے فرقہ واریت پھیلاتے ہیں۔ اِن کی حالت اُس بڑھیا جیسی ہے جس نے باز کو دیکھ کر بڑا ترس کھایا تھا ،اُس نے کہا اِس کی چونچ ٹیڑھی ہے بیچارہ کھاتاکیسے ہو گا ؟ یہ کہا اور باز کی چونچ کاٹ دی ۔پھر دیکھا کہ باز کے پَر بڑھے ہوئے ہیں بڑھیا کہنے لگی بڑے اَفسوس کی بات ہے آج تک کسی نے اِس کی حجامت بھی نہیں بنائی، یہ کہہ کر اُس کے پَر کاٹ ڈالے ۔(باقی صفحہ ٥١ )