ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
چل رہے ہیں اور اُسی تحقیق کی حامل کتب اُن کا نصابِ درس ہیںنیز جن مدارس کے علم و تحقیق کا سلسلہ خیرالقرون کے علم وتحقیق سے جڑاہوا ہے اور جن کے علم و تحقیق کو جدیدیت کے بجائے تواتر و توارث کی سند حاصل ہے وہ مدارس ہرگز ہرگز فرقہ واریت کے مرکز نہیں ہیں اور نہ ہی وہ علماء فرقہ واریت میں ملوث ہیں ۔جو اَسلاف کی اُسی متواتر و متوارث علمی تحقیق و تشریح کے وارث و اَمین ہیں اور وہ اُس تحقیق و تشریح کے قدر دان و عَلم بردا ر ہیںجس کو تحقیق ِمن یامن کی تحقیق کی سفلی نسبت کی بجائے تحقیق سلفی کی نسبت حاصل ہو اور جو تحقیق اَسلاف کی تحقیق سے متصادم ہووہ اِس سے بیزار ہیں ۔کتاب وسنت اُن کا مقصد حیات ہے مگر ذہنی آوارگی اور باغیانہ ذہنی آلودگی کے ساتھ نہیں بلکہ اَسلاف کی تحقیق و تشریح کے تحت اور یہی صراط ِمستقیم ہے۔ فرقہ واریت کے مراکز وہ مدارس ومساجد اور سکول ،کالج ،یونیورسٹی اور سرکاری و نیم سرکاری اِدارے اور اُن کے دفاتر ہیں جن میں عہد ِنبوت ،عہد ِصحابہ ،عہد ِتابعین سے پورے تواتر کے ساتھ علم وعمل کی راہ سے چلنے والی کتاب وسنت کی متواتر تحقیق کوتقلیدی شرک،جہالت ، رجعت پسندی، دقیانوسیت ،ذہنی غلامی، تقلیدی ذہنی جمود ،ملائیت ،مُلّااِزم ، فرسودہ خیالات کامکروہ عنوان دیا جاتاہے اور اِس متواتر تحقیق پر پختگی کو بنیاد پرستی، اِنتہا پسندی ،تنگ ظرفی ،ضد اور تعصب کہا جاتا ہے اور تاریخ اِسلام کے تابناک ماضی ،سنہری دور یعنی زمانہ خیرالقرون کو دورِ تاریکی اور جہالت ِثانیہ کے اپنے اِس تاریک دور کو علم وروشنی کا دور قرار دے کر اَسلاف کی تحقیقات وتشریحات سے نفرت و بیزاری اور سرکشی وبغاوت کا ذہن پیدا کرکے اِ س حد تک باغیانہ، متکبرانہ اور گستاخانہ ذہن اوراَندازِ فکر پیدا کیا جاتاہے اور اِس قدر خود رائی ،اَنانیت اور غرور و تکبر بھر دیا جاتا ہے کہ پھر ایسے لوگ صحابہ کرام سمیت بڑے بڑے محققین، علمائِ سلف، ماہرین ِشریعت اِن کو اپنے مقابلہ میں ہیچ نظر آتے ہیں، اِس لیے وہ اِن پر اعتماد کرنے کی بجائے اِن کی کامل تحقیق کو اپنی ناقص جاہلانہ ،طفلانہ بلکہ مجنونانہ تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنا اور پرکھ کر اُن کے علم و تحقیق پر تنقید و نکتہ چینی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور ایسی تربیت کرنے والے اَساتذہ کا وہ پروردہ بیٹا اور پالتو پٹھا بڑا ہی باکمال متصور ہوتا ہے جو ماہرین ِشریعت یعنی فقہا ئِ اُمت اور