ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
لیے، صبح نو دس بجے کا وقت، حضرت والد صاحب رحمة اللہ علیہ اُس وقت آرام فرماتے تھے، اُسے بٹھادیا، جب وہ اُٹھے گھنٹہ پون گھنٹہ لگا ہوگا تو اُٹھتے ہی میں نے اُنہیں بتایا کہ ایسے ایک آدمی باہر بیٹھا ہے اِسلام لانے کے لیے تو خفا ہوئے کہنے لگے تو نے کیوں نہیں پڑھا دیا اُسے کلمہ ،یہ دیر کیوں کی ؟ اِس عرصہ میں اگر اُس کی موت آگئی خدانخواستہ تو کفر پر مر جائے گا، فرمانے لگے کہ آئندہ دیر مت کرو کسی کے لیے کہ فلاں بزرگ سے پڑھوانا ہے کیونکہ اگر موت اُس کو آگئی خدا نخواستہ تو پھر اُس کی دُنیا وآخرت دونوں بربادہوگئیں، اُسی وقت پڑھوادو، نہ کسی اُستاد کے پاس لے جاؤ نہ شاگرد کے،کلمہ پڑھوادو پھر اُن سے بھی ملادو جن سے آپ کا دِل چاہتا ہے۔ لیکن پہلے اُس کو جہنم کے گڑھے کے کنارے پر جو کھڑا ہے بچاؤ۔ اگر آپ کے اُستاد کسی کنارے پر کھڑے ہوں اور پیچھے وہ اُلٹے پاؤں جارہے ہوں اورپیچھے کھڈا ہے بہت بڑا اور آپ کہیں حضرت اَقدس مولانا فلاں فلاں تو اِتنی دیر میں وہ کھڈے میں گرجائے گا وہاں اَدب آداب گر جائیں گے، فورًا آپ کہیں گے یا پکڑ کر کھینچیں گے۔ عام حالات میں کبھی بھی نہیں کھینچیں ،گے اُس وقت یوں پکڑ کر دھکا دیں گے اُستاد کو، یہی اَدب ہے اُس وقت کا۔ہرجگہ ہرموقع کا ایک اَدب ہوتا ہے، محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سکھادے گی۔ جب محبت ہوگی اُستاد سے باپ سے ماں سے تواُس کے آداب بھی آجائیں گے۔ یہاں ماں باپ کو ایسے اُٹھا کر چلنا ہے اور یہاں ایسے اُٹھاکے، یہ محبت سکھادے گی۔ تو جب پیدا ہوا تو عقائد، جب مر رہا ہے تو (اگرچہ بہت بڑا نیک دل مر رہا ہو مگر ایسے نہیں کہیں گے کہ)بھئی مرنے دو(کلمہ وغیرہ کی کیا ضرورت مگر نہیں) تلقین اُس کو بھی کرنا ہے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ،یا جو بھی اِس کے جیسی چیزیں ہیں وہ پڑھو وہ کہلاؤ چاہے مسلمان ہے وہ، کافر ہے تو بھی کہہ سکتے ہیں اُس کو کہ بھئی اِیمان لے آ، دعوت دے سکتے ہیں آخر وقت تک، لیکن اِنسان شروع میں بھی جب پیدا ہو اتو اِعتقاد، مر رہا ہو تو اِعتقاد۔ لہٰذا اِمام بخاری رحمة اللہ علیہ نے بخاری جب شروع کی تو گویاپیدائش ہو رہی ہے تمہاری تو اِیمان اور اِعتقاد، اِختتام ہو رہا ہے(بخاری کا تو گویا) رُخصتی ہو رہی ہے تمہاری تو اِعتقاد،یہ اِمام بخاری کااِخلاص تھا جس کی برکت سے اللہ نے اُن سے اَنوکھی اور بدیع ترتیب کااِنعقاد کرایا۔ (باقی صفحہ ٥٨ )