ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
پہلے بحری لڑائی کا خیال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دِل میں پیدا ہوا اور اُنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا آپ نے اِن کواِجازت دی اورایک بڑی فوج اِن کی ماتحتی میں دے کر جزیرہ ٔ قبرص کی طرف روانہ کیا۔اِسلامی فوجیں جہازوں میں سوار ہو کر سمندر میںروانہ ہوئیں، رُومیوں سے پچاس لڑائیاں ہوئیں اور تمام وہ جزائر مسلمانوں کے قبضہ میںآگئے، قیصرِ رُوم کا نام و نشان مٹ گیا، عیسائیت کا جسمِ بے جان خاک ہو گیا اور اِسلام کی رُوحِ پاک نے اِن مردہ زمینوں میں جان ڈالی۔ یہ بحری لڑائیاں وہ تھیں جن کی پیشنگوئیاں رسولِ خدا ۖ پہلے ہی فرما چکے تھے اور اِن لڑائیوں سے اپنی رضامندی کااِظہار بھی فرما چکے تھے چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسولِ خدا ۖ ایک روز دوپہر کے وقت اُم حرام رضی اللہ عنہاکے گھر میں قیلولہ فرما رہے تھے کہ یکایک آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔اُم حرام رضی اللہ عنہا نے مسکرانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اِس وقت میں نے اپنی اُمت کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سمندر میں جہازوں پر بڑی شان و شوکت کے ساتھ چلے جا رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ گویا بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، یہ بھی فرمایا کہ اُس جماعت کے لیے جنت واجب ہے۔ اُم حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ دُعا کیجئے کہ میں بھی اُس جماعت میں ہوجاؤں، آپ نے اُن کے لیے دُعا کی اور فرمایا کہ تم اُس جماعت میں ہوگی چنانچہ اُم حرام رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ اُس فوج میں گئیں اور واپسی کے وقت گھوڑے سے گرکر شہید ہوگئیں،آپ جزیرہ ٔ قبرص میں دفن بھی ہیں۔ یہ بحری لڑائیاں اِن پیشنگوئیوں اور بشارتوں کی وجہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عمدہ فضائل میں شمارکی گئی ہیں۔ ملک اِیران کے بھی بعض حصے فتح ہونے سے رہ گئے تھے۔ مثل ِخراسان کا اور جوئیں اور بیہق اور قیروز آباد اور شیراز اور طوس اور نیشا پور اور ہرات اور بلخ وغیرہ کے یہ مقامات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد ِ خلافت میں فتح ہوئے۔ قیصرِ رُوم بھی آپ کے عہد ِ خلافت میں مارا گیا اور یزد گرد بھی آپ ہی کے عہد ِ مبارک میں فی النار ہوا جس کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔(جاری ہے)