ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
عبداللہ بن سعد (رضی اللہ عنہ) کا سر لائے گا اُس کو ایک لاکھ اَشرفیاں دی جائیں گی اور جرجیر کی لڑکی کی شادی اُس سے ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فورًا اِس کے جواب میں اِعلان دیا کہ جو شخص جر جیر کا سر کاٹ کر لائے گا اُس کو ایک لاکھ اَشرفیاں دی جائیں گی اور جرجیر کی لڑکی اُس کے حوالے کی جائے گی۔ اِس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فوج کے دو حصے کیے، ایک حصہ کو حکم دیا کہ اپنے خیموں میں آرام کریں اور دُوسرے حصے کو لے کر میدانِ جنگ میں گئے، جب دوپہر کو حسب ِ معمول لڑائی ختم ہونے کا وقت آیا اور دونوں لشکر میدانِ جنگ سے واپس ہوئے تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اُس حصہ فوج کو جو اَب تک آرام کر رہاتھا میدانِ جنگ میںآنے کا حکم دیا چنانچہ اُس فوج نے میدان میں پہنچ کر اِن ملعونوں کو آرام بھی نہ کرنے دیا، وہ لڑائی ہوئی کہ کافروں کے حوصلے پست ہوگئے اور جر جیر خود حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہوا اور اُس کی فوج میں ہزیمت شروع ہوئی، بے شمار کافر تہ تیغ ہوئے۔ اِس قدر مالِ غنیمت حاصل ہوا کہ خمس جدا کرنے کے بعد فی سوار تین ہزار اَشرفیاں اور فی پیادہ ایک ہزار اَشرفیاں تقسیم ہوئیں اور حسب ِاعلان ایک لاکھ اَشرفیاں اور جرجیر کی لڑکی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ملی۔ اِس لڑائی کو حَرْبُ الْعَبَادِلَہْ اِس وجہ سے کہتے ہیں کہ سردارِ فوج حضرت عبداللہ بن سعد اور میمنۂ لشکر حضرت عبداللہ بن عمر اور میسرہ پر عبداللہ بن زبیر اور مقدمۂ لشکر پر عبداللہ بن عباس تھے۔ فتح اَفریقہ کے بعد اِسلامی فوجیں بجانب مغرب بڑھیں، وہاں بھی بڑی جنگ ِ عظیم پیش آئی بالآخر طرابلس واُندلس اور مغرب کے تمام شہر مسلمانوں کے قبضہ میںآگئے اور دین ِ پاک کاجاہ وجلال مغرب میں چمکنے لگا۔ بحری لڑائیاں جن سے اَب تک مسلمان ناواقف تھے، پہلے دونوں خلیفہ کے زمانے میں کوئی بحری جنگ ہی نہیں ہوئی تھی بالکل نیا کام تھا۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے قیصر رُوم کی شوکت کو پامال کر دیا تھا مگر پھر بھی کچھ وجود قیصر کا باقی تھا اور ساحلی مقامات پر اُس کی حکومت قائم تھی، سب سے