ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
'' آج کے نوجوان اہلِ علم جو اِسلام کے چودہ سو سالہ ماضی اَور جدید گلوبلائزیشن کے ثقافتی ماحول کے سنگم پر کھڑے ہیں وہ نہ ماضی سے دَستبردار ہونا چاہتے ہیں اَور نہ مستقبل کے ناگزیر تقاضوں سے آنکھیں بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اِس کوشش میں ہیں کہ ماضی کے علمی وِرثہ کے ساتھ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے قدیم و جدید میں تطبیق کی کوئی قابلِ قبول صورت نکل آئے مگر اُنہیں دونوں جانب سے حوصلہ شکنی کا سامنا ہے اَور وہ بیک وقت قدامت پرستی اَور تجدد پسندی کے طعنوں کے ہدف ہیں۔ مجھے اُن نوجوان اہلِ علم سے ہمدردی ہے میں اُن کے دُکھ اَور مشکلات کو سمجھتا ہوں اَور اُن کی حوصلہ اَفزائی کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتا ہوں صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اُمت کے اِجماعی تعامل اَور اہل السنة و الجماعة کے علمی مسلَّمات کا دائرہ کراس نہ ہو کیونکہ اِس دائرے سے آگے بہرحال گمراہی کی سلطنت شروع ہوجاتی ہے۔'' ( حدود و تعزیرات ، مصنفہ عمار خان ص13) جاوید غامدی اَور عمار خان مولانا زاہد الراشدی صاحب کے معیار پر کس قدر پورے اُترتے ہیں مولانا کو اِس بارے میں اپنی ذمہ داری کا اِحساس تک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اِس خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ یہ نوجوان حق کے طالب ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ عمار خان ہی کی تحریریں پڑھیے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے اَفکار میں پختہ اَور جامد ہیں، حق طلبی سے اِنہیں دلچسپی نہیں ہے اَور اُن کی اَصل غرض جاوید غامدی کے اَور اَپنے اَفکار کی اِشاعت ہے۔ اَور کیوں نہ ہو جبکہ جاوید غامدی صاحب تقدیر کا یہ اَٹل فیصلہ سنا چکے ہیں کہ '' اِس گروہ (یعنی طبقہ دیوبند ) کی عمر پوری ہوچکی، اِس کی مثال اَب اُس فرسودہ عمارت کی ہے جو نئی تعمیر کے وقت آپ سے آپ ویران ہوجائے گی۔آنے والے دَور کی اِمامت دَبستانِ شبلی ہی کے لیے مقدر ہے۔'' (مقامات : ص21)