ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
اِس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مولانا شبیر اَحمد صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ''یعنی ایک جماعت دُوسری جماعت کے ساتھ نہ مسخرا پن کرے نہ ایک دُوسرے پر آوازیں کسے جائیں نہ کھوج لگا کر عیب نکالے جائیں اَور نہ برے ناموں اَور برے اَلقاب سے فریق ِمقابل کو یاد کیا جائے کیونکہ اِن باتوں سے دُشمنی اَور نفرت میں ترقی ہوتی اَور فتنہ و فساد کی آگ زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ سبحان اللہ ! کیسی بیش بہا ہدایات ہیں ۔ آج اَگر مسلمان سمجھیں تو اُن کے سب سے بڑے مرض کا مکمل علاج اِسی ایک سورۂ حجرات میں موجود ہے۔ '' ''یعنی کسی کا برا نام ڈالنے سے آدمی خود گنہگار ہوتا ہے اُسے تو واقع میں عیب لگا یا نہ لگا لیکن اُس کا نام بد تہذیب، فاسق گنہگار مردم آزار پڑ گیا۔ خیال کرو ''مومن'' کے بہترین لقب کے بعد یہ نام کیا اچھے معلوم ہوتے ہیں ١ یا یہ مطلب ہے کہ جب ایک شخص اِیمان لا چکا اَور مسلمان ہو گیا اُس کو مسلمانی سے پہلے کی باتوں پر طعن دینا یا اُس وقت کے بدترین اَلقاب سے یاد کرنا مثلاً یہودی یا نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا نہایت مذموم حرکت ہے۔ اِسی طرح جو شخص کسی عیب میں مبتلا ہو اَور وہ اُس کا اِختیاری نہ ہو یا ایک گناہ سے فرض کیجیے توبہ کر چکا ہے، چِڑانے کے لیے اُس کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں۔ '' '' یعنی جو پہلے ہو چکا اَب توبہ کرلو اَگر یہ اَحکام و ہدایات سننے کے بعد بھی اِن جرائم سے توبہ نہ کی تو اللہ کے نزدیک اَصلی ظالم یہ ہی ہوں گے ۔ '' اِس ترجمہ اَور تفسیر کی روشنی میں یہ بات اَچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں ١ یعنی'' مومن'' جیسے پاکیزہ وصف کے ساتھ فاسقوں فاجروں جیسی حرکات، مسخرہ پن اَور بازاری حرکتیں کس قدر بدنما داغ ہیں ۔محمود میاں غفرلہ