ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
(اِس آیت ِ مبارکہ میں لفظ ''بَلْ'' اِستعمال ہوا ہے جیسے آپ کسی سے پوچھیں کہ کیا آپ کھانا کھا رہے تھے تو وہ جواب میں کہتا ہے نہیں بلکہ کتاب دیکھ رہا تھا تو جواب دینے والے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس وقت آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں کھانا کھا رہا ہوں تو اُس وقت میں کھانا نہیں کھا رہا تھا بلکہ اُس وقت تو کتاب دیکھ رہا تھا ،اِسی طرح اِس جملہ کا مطلب بھی ہے کہ جس وقت وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اُنہیں قتل کردیا گیا ہے تو اُس وقت حقیقت یہ نہ تھی بلکہ اُنہیں تو اُٹھا لیا گیا تھا)۔ اَور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب آپ دُنیا میں اُتارے جائیں گے تو اُن کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپکتے ہوں گے جیسے کہ وہ اَبھی حمام سے غسل کر کے نکلے ہوں۔ اَور واقعہ اِس طرح ہوا تھا کہ وہ غسل سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ آسمان پر اُٹھا لیے گئے اَب واپسی تک وہی صورت قائم رہے گی کیونکہ وہ ایسے عالم میں رہتے ہیں کہ جہاں کشش ثقل نہیں ہے اِس لیے اُن کے سر مبارک کے قطرے کسی طرف بھی حرکت نہ کریں گے نہ وہاںایسی فضاء ہے کہ جس سے چیزیں متغیر ہوتی ہیں اِس لیے وہ خشک بھی نہ ہوں گے وہاں کا زمانہ بھی دُنیا کے زمانہ سے مختلف ہے بہت وقت گزر جائے تو بھی محسوس نہیں ہوتا، اُس کا پیمانہ ہی دُوسرا ہے اَلبتہ اَندازہ کے لیے بتلایا گیا ۔ ( اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنِ )۔(پ ١٧ رکوع ١٣) '' اَور تمہارے رب کے یہاں ایک دِن ہزار برس کے برابر ہوتا ہے جو تم شمار کرتے ہو۔ '' آنسٹائن دُنیا اَور مریخ میں بھی اِس تفاوت ِ زمانہ کا قائل تھا اَور وہ حساب سے ثابت کرتا تھا۔ ''نیند ''کیا ہے : ہو سکتا ہے کہ آسمان پر جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں نیند بھی نہ ہو کیونکہ نیند کا اَصل باعث وہ تھکن ہے جو کشش ِ ثقل کی وجہ سے اِنسان محسوس کرتا ہے ۔اِسے یوں سمجھئے کہ اِنسان جسم و رُوح سے مرکب ہے،جسمِ خاکی چاہتا ہے کہ زمین کی طرف اِتنا زیادہ جھکے کہ مِل ہی جائے۔ اَور رُوح کے تقاضے اِس سے جدا ہیں۔ اِس لیے جب ہم کھڑے ہوتے ہیں تو جلد تھک جاتے ہیں پھر بیٹھ کر آرام محسوس