ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
اِس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اِس کے صحیح مخاطب رسول اللہ ۖ ہیں اَور اُن کی نظر مبارک کا آسمان تک پہنچنا معجزہ سے بعید نہیں۔ دُوسرے یہ عرض ہے کہ اِن آیات کی تفسیر حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے کچھ تو(یورپ کے) فلاسفۂ قدیم کے نظریے سے کی ہے اَور زیادہ حصہ ایسی طرح سے کی ہے کہ جس سے آج کے بھی تمام اِشکالات رفع ہوجاتے ہیں، وہ فرماتے ہیں : ( فَا رْجِعِ الْبَصَرَ ) اَپنی آنکھ عالمِ علوی کی طرف پھیرو کیونکہ پیدا ہوانے والی اَور صحیح اَور غلط ہونے والی چیزوں کا اَصل مبدأ وہی ہے اَور جب تک کسی چیز کی اَصل میں خلل نہیں آتا ہے اُس وقت تک اُس چیز میں بھی کسی طرح کا نقصان نہیںآتا ۔ ( ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ )کیا تم عالمِ علوی میں کوئی شگاف یا دَراڑ جو اُس کی حکمت کا نقص ظاہر کرے دیکھتے ہو ؟ اَور اگر ایک دفعہ دیکھنے سے تشفی نہ ہو اَور خیال ہو کہ پہلی دفعہ دیکھنے کا اِعتبار نہیں ہوتا تو ( ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ ) پھر اَپنی عقل کی آنکھ کو پھرا کر دیکھو اَور اِس عالم کے اَحوال کو مکرر دیکھو (کَرَّتَیْنِ )۔ ( یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا ) تمہاری طرف نظر کُھدیڑی ہو ئی لوٹ آئے گی (وَھُوَ حَسِیْر ) وہ تھکی ہوئی اَور عاجز ہوگی۔ پھر ( وَلَقَدْ زَیَّنَ السَّمَآئَ الدُّنْیَا ) کی تفسیر میں اِرشاد فرماتے ہیں : جاننا چاہیے کہ کسی مکان کو چراغوں سے مزین کرنا اِس بات پر موقوف نہیں کہ سب چراغ اُسی مکان میں رکھے ہوں بلکہ اُوپر سے رسیوں اَور زنجیروں سے قندیلوں کو اِس طرح لٹکا دینا کہ اُس کی روشنی سے وہ سب مکان روشن ہوجائے اِسی کا نام'' زینت'' ہے۔ ہم حضرت شاہ صاحب کے اِس جملہ کو فلسفہ ٔ قدیم کی نظر سے نہ دیکھیں جس کا اُس وقت تک رواج تھا تو آج یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ چاند سورج وغیرہ سب آسمان سے نیچے معلق ہیں اَور اِن سے آسمان کو زینت بخشی گئی ہے اَور عالمِ غیب کے اَور بھی کام لیے جاتے ہیں مثلاً عالمِ غیب کے علوم شیاطین نہ اَخذ کر سکیں اَور اُنہیں مار بھگایا جائے۔