ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
جب قرآنِ پاک کی تلاوت زیادہ کی جائے گی تو جو لوگ حافظ ہیں اُن کو چاہیے کہ وہ لمبی نماز پڑھیں مگر کون سی ؟ گھر میں جو پڑھی جاتی ہے تنہائی میں اَپنی ذاتی جو (نفلی)ہوتی ہے وہ ۔ اِمام کو مسنون مقدار سے زیادہ لمبی نماز پڑھانے کی اِجازت نہیں : باہر جب سب لوگ ہوں تو بالکل اِجازت نہیں ہے لمبی نماز کی بلکہ رسول اللہ ۖ تو خفا ہوگئے۔ ایک صحابی تھے اُنہوں نے یہ کیا کہ نماز شروع کی اَور سورۂ بقرہ شروع کردی عشاء کی نماز میں ایک اَور صحابی تھے وہ لائے تھے کرائے پر اُو نٹنی، اُنہیں اُونٹنی سے پانی سینچنا تھا تو سورۂ بقرہ تو ڈھائی پارہ کی ہے اَب کیا پتہ اِمام کتنی پڑھتا ہے اِنتظار کیا ہوگا اُنہوں نے کہ اَب رُکتے ہیں یا اَب رُکتے ہیں بہرحال جب وہ نہ رُکے اَور اَنداز ہوا کہ یہ تو پوری سورة ایک رکعت یا دو میں پڑھیں گے تو اُنہوں نے اَپنی نیت توڑ دی، اَلگ نماز پوری کر کے اَپنے کام چلے گئے۔ اَب یہ صحابی جو نماز پڑھا رہے تھے اِنہیں اَنداز ہو گیا یا پتہ چل گیا تو اِنہوں نے کہا کہ یہ بہت برا کیا نماز فرض ہے اَور فرض نماز کی نیت توڑنی یہ کبیرہ گناہ ہے یہ کیوں کیا اُنہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ایک مسئلہ پیدا ہوگیا کہ کیا کرنا چاہیے تھا اَور کیا نہ کرنا چاہیے تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صحابی جنہوں نے نیت توڑی تھی اُن کو یہ پتہ چلا کہ ایسے یہ سوال اُٹھا ہوا ہے اِعتراض اُٹھا ہوا ہے وہ خود حاضر ہوگئے رسول اللہ ۖ کی خدمت میں اَور عرض کیا کہ اِس طرح سے ہم دِن میں کام میں بھی ہوتے ہیں اَور اِس طرح میں اُونٹنی لایا اَور اِن صحابی نے جو نماز پڑھاتے ہیں اُس دِن میں نے دیکھا کہ اِنہوں نے فَاسْتَفْتَحَ بِسُوْرَةِ الْبَقَرَةِ شروع کی ہے نماز سورۂ بقرہ سے وہ تو پھر لمبی نماز ہوجاتی ہے۔ تو رسول اللہ ۖ کویہ سن کر بہت غصہ آیا آپ بہت خفا ہوئے اَور فرمایا فَتَّان ، فَتَّان ، فَتَّان یعنی فتنہ فتنہ پیدا کردیا یا فرمایا فَاتِن ، فَاتِن یعنی فتنہ مطلب ایک ہی ہے فَتَّان میں مبالغہ ہے اَور فرمایا کہ نہیں بس سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰیاَور یہ سورتیں پڑھا کرو اَور جب نماز پڑھا ؤ تو پڑھانے والے کو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے فَلْیُخَفِّفْ ۔ کیونکہ اُن میں مریض بھی ہوتے ہیں کمزور بھی ہوتے ہیں ضرورتمند بھی ہوتے ہیں فَاِنَّ فِیْھِمُ الْمَرِیْضَ وَالضَّعِیْفَ وَذَالْحَاجَةِ ۔ اُس کی