امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک مستقل باب قائم کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ پانچ سال ہی کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہو جانا چاہیے (۱)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بہترین صدقہ قرار دیا ہے کہ ایک شخص دوسرے کو علم سے بہرہ مند کر دے (۲)۔
اس تعلم میں سب سے بنیادی چیز تو دینی تعلیم ہے ۔ اس لیے کہ وہ ہر شخص کی ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے ، اس کے علاوہ ایسی ضروری دنیوی تعلیم دلانی بھی والدین کی ذمہ داری اور ان کا فریضہ ہے جو اولاد کی زندگی یا اس کی معیشت کے لئے ناگزیر ہو ۔ سلفِ صالحین نے ایسے غیر دینی مفید علوم و فنون کی بھی توصیف کی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ انہوں نے فرمایا :
العلوم خمسۃ الفقہ للادیان و الطب للابدان و الھندسۃ للبنیان و النحو لِلّسان و النجوم للزمان۔ (۳) ۔
( مقصدی ) علوم پانچ ہیں ، فقہ مذہب کو سمجھنے کے لیے ، طب جسمانی علاج کے لئے ، انجنیرنگ تعمیر کے لئے ، قواعد نحو زبان دانی کے لیے اور علم نجوم وقت کی تحقیق کے لئے ۔
جسمانی تربیت
عقل و فہم ، اخلاق و شائستگی اور فکر و عقیدہ کی درستگی اور اعتدال کے لئے سب سے بنیادی اور مادی ضرورت انسان کی جسمانی صحت اور اعتدال ہے ۔ اسلام نے اس گوشہ کو بھی تشنہ نہیں رکھا اور واضح ہدایات دی ہیں ۔
-----------------------------------------------------
(۱) بخاری اول باب الاغتباط فی العلم و الحکمۃ ۔
(۲) کنز العمال ۹۸/۱۔
(۳) طاش کبریٰ زادہ : مفتاح السّعادۃ ۲۶۷/۱۔