اور ان پر نص وارد ہو اور وہ جو اجتہادی ہوں اور ان میں اختلاف کی گنجائش ہو، کو ایک ہی درجہ دیدیا جائے کہ اس سے خیر سے زیادہ شر اور نفع سے زیادہ ضرر کا اندیشہ ہے۔ ایسا شخص جو فسق و فجور میں مبتلا ہو، اس کی دعوت مناسب ہے کہ نہ قبول کی جائے تاکہ اس کے فسق و فجور پر ناراضگی کا اظہار ہو۔ لا یجب دعوۃ الفاسق المعلن لیعلم انہ غیر رامن بفسقہ (۱)۔تاہم ضروری ہے کہ اس کا استعمال مصالح و حالات کی ریایت کے ساتھ کیا جائے، اگر اس بات کا امکان ہو کہ اس کی دعوت قبول کر کے اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے تو اس اہم تر مصلحت کی بنیاد پر دعوت قبول کی جا سکتی ہے۔
غیر مسلموں کی دعوت
فقہاء نے غیر مسلموں کی دعوت قبول کرنے کو جائز قرار دیا ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کی دعوت قبول فرمائی تھی (۲)۔ دراصل اسلام نے عام انسانی سلوک اور اکرام میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے، ہاں اگر اس کی دعوت اس کے کسی مذہبی عقیدہ و عمل سے متعلق ہو تو اس میں شرکت جائز نہ ہو گی کہ یہ کفر میں تعاون یا کم سے کم اس پر رضا کا اظہار ہو گا۔ ہندوؤں کے یہاں تیوہاروں اور دیوی دیوتاؤں کے پرشاد کا یہی حکم ہے کہ ان کا قبول کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی فتنہ کے اندیشہ سے قبول کرنے کے سوا چارہ نہ ہو تو کھانا جائز نہیں، اسی طرح غیر مسلموں کو دعوت دینا بھی جائز ہے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کفار کی میزبانی کی ہے (۳)۔
مسلمان کی دعوت کے متعلق ایک ضروری ہدایت
------------------------------------------------------------------
(۱) ہندیہ ۵/۳۴۳۔
(۲) المغنی ۷/۲۱۳۔
(۳) جمع الفوائد ۱/۲۹۴۔