مولانا انور شاہ کشمیری کا خیال ہے کہ شاید امام صاحب کے اصل مذہب میں بھی کچھ تفصیل ہے اور مطلقا حرام سے علاج کی ممانعت نہیں ہے اس لئے طحاوی نے امام صاحب سے سونے کے تاروں سے دانت باندھنے کی اجازت نقل کی ہے ۔ خارش کی وجہ سے ریشمی کپڑوں کے استعمال کا جواز احناف میں معروف بات ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتیں بھی حرام ہی سے علاج کی قبیل سے ہیں (1)
رہ گئی وہ روایت کہ حرام میں شفا ء نہیں ہے تو اس کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں ۔ ان میں یہ توجیہ بہت قوی ہے کہ یہ اس صورت میں ہے کہ جب مریض اس شئ حرام کے استعمال پر مجبور اور مضطر نہ ہو بلکہ اس کا متابدل موجود ہو ۔ عینی کے الفاظ میں "والواجب القاطع ان هذا محمول علي حالة الاختيار " دوسرے ممکن ہے کہ آپﷺ نے ایسی اشیاء کے لئے شفاء کے لفظ کے استعمال کو مناسب نہ سمجھا ہو کیوں کہ شفاء کا لفظ مبارک چیزوں کے بابت بولا جاتا ہے ، ناجائز چیزوں سے جو فائدہ ہو اسے منفعت کہنا چاہئے اسی لئے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا : إِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا(2)
ناپاک اشیاء سے علاج
یہی حال ناپاک اشیاء کا ہے۔ قاضی ابو یوسف نے اونٹ کا پیشاب اور خون پینے کی اجازت دی ہے اگر علاج مقصود ہو(۳) فتاویٰ بزازیہ میں ہے کہ دواءًا کبوتر کی بیٹ کھانا جائز ہے۔ "اکل خرء الحمام فی الدواء لابأس بہ (۴) از راہِ علاج
--------------------------
(۱) معارف السنن ۳۷۹/۱۔
(۲) حوالۂ سابق۔
(۳) نیز ملاحظہ ہو رد المحتار ۲۱۶/۵۔
(۴) بزازیہ علیٰ ہامش الہندیہ ۳۶۵/۶۔