ایک یہ بھی ہے کہ سلام کو رواج دو(1) اور آپ ﷺ نے سلام کو باہم محبت اور میل جول بڑھنے کا باعث قرار دیا(2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بسا اوقات صرف اس لئے بازار جایا کرتے تھے کہ راہ چلنے والوں اور ملاقاتیوں کو سلام کریں (3)
سلام کے الفاظ
سلام کے منقول الفاظ اس قدر ہیں " السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ" جواب میں بھی " و " کے اضافہ کے ساتھ اتنا ہی منقول ہے" وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ " چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺ کی وساطت سے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اسی حد تک سلام کا جواب دیا ہے۔(4)----امام نووی نے لکھا ہے کہ سلام میں چاہے ایک ہی شخص مخاطب کیوں نہ ہو، مگر " کم " یعنی جمع کا صیغہ استعمال کرنا چاہئے اور جواب دینے والے کو " و " کا اضافہ کرنا چاہئے، یعنی " وعلیکم "(5)
بہتر طریقہ ہے کہ سلام کرتے ہوئے " برکاتہٗ "تک پورا فقرہ ادا کیا جائے، چنانچہ ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا " السلام علیکم " پھر بیٹھ گئے، آپ ﷺ نے فرمایا ان کے لئے دس نیکیاں دوسرے آنے والے نے اس کے ساتھ " و رحمۃ اللہ " کا اضافہ کیا، آپ ﷺ نے
---------------------------------------------------------------
(1) حوالہ سابق، بخاری و مسلم عن البراء بن عازب۔
(2) مسلم، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام 213/2، مسلم عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ
(3) مؤطا امام مالکؒ عن طفیل بن ابی بن کعب۔
(4) بخاری و مسلم عن عائشہ۔ باب من رد السلام فقال علیک السلام وقالت عائشہ و علیہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ بخاری 924/2۔
(5) ریاض الصالحین باب کیفیۃ السلام