کھانے کی مقدار
انسانی جسم چوں کہ اللہ کی امانت ہے اور اس کی حفاظت و صیانت اور جائز حدود میں اس کی راحت و عافیت کا سامان بہم پہنچانا انسان کے واجبات میں سے ہے ، دوسری طرف خورد و نوش میں اس کا درجہ کا مبالغہ کہ گویا یہی انسان کا مقصد وجود ہے ، شرعا ناپسندیدہ اور قبیح ہے اس لئے فقہاء نے کھانے کے درجات مقرر کئے ہیں اور ان کے الگ الگ احکام ذکر کئے ہیں ۔
کھانے کی اتنی مقدار کہ جس کے ذریعہ انسان خود کو ہلاکت سے بچا سکے اور اس کوترک کرنے میں ہلاکت کا اندیشہ ہو ، فرض ہے ،کیوں کہ انسان اس کے ذریعہ فرائض و احکام خداوندی کی تعمیل پر قادر ہوسکے گااور اپنا فرض ادا کرکے عنداللہ اجر کا مستحق ہوگا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، اللہ تعالی ہر چیز پر اجر عطا فرمائیں گے یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جس کو بندہ اپنے منھ میں رکھتاہے ۔ ان اللہ لیوجر فی کل شیئ حتی اللقمۃ یرفعھاالعبد الی فیہ ۔
اس سے زیادہ کھانا تاکہ کھڑے ہو کر نماز ادا کر سکے اور بہ سہولت روزہ رکھ سکے ، مستحب ہے اس لئے کہ ایسے افعال جن کے ذریعہ طاعت خداوندی کی قوت میسر ہو ، بجاۓ خود طاعت ہے ، حضرت ابوذر سے دریافت کیا گیا کہ تمام اعمال میں افضل کونسا عمل ہے ، فرمایا، نماز پڑھنا اور روٹی کھانا ۔
قوت جسمانی میں اضافہ کے لئے آسودہ ہونے تک کھانا مباح ہے اس سے زیادہ کھانا جائز نہیں کہ اس میں ماں کا ضیاع بھی ہے ، اسراف اورفضول خرچی بھی اور یہ صحت جسمانی کے لئے ضرر رساں بھی ہے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ خوب کھانے میں خیر ہے نہ بھوکے رہنے میں بلکہ اعتدال و میانہ روی بہتر ہے