کہ جہاں کہیں بھی حلت و حرمت مشتبہ ہو جائے وہاں اس کے حرام ہونے ہی کو ترجیح دی جائے گی، فقہاء نے ہر جگہ اس کا لحاظ رکھا ہے مثلاً جانور پر ایک مسلمان نے کتا چھوڑا، دوسرے مجوسی کا چھوڑا ہوا کتا بھی شریک ہو گیا تو کو اس کا احتمال موجود ہے کہ مسلمان کے کتے ہی نے شکار کیا ہو لیکن مجوسی کے کتے کی شرکت کی وجہ سے اس پر حرام ہونے کا حکم لگے گا۔
شکار کا جانور چھوڑنے کے بعد ضروری ہے کہ شکار کئے گئے جانور کے تعاقب اور تلاش میں رہے، بیٹھ رہا اور بعد کو مرا ہوا شکار ملا تو گو اس کا کتا وہاں موجود ہو پھر بھی حلال نہیں کہ ممکن ہے موت کا کوئی اور سبب پیش آیا ہو۔
پرندہ کو تیر لگا ، وہ وہاں سے کسی پہاڑی وغیرہ پر گرا، پھر وہاں سے زمین پر گرا اور مردہ پایا گیا تو حلال نہ ہو گا کہ ممکن ہے تیر کے زخم کی بجائے چوٹ اس کی موت کا سبب بنی ہو (1)----------شریعت کے اس احتیاط کو ذبح و شکار کے ان تمام احکام میں ملحوظ رکھا جائے جن میں اس کے خلاف کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو۔
شراب--------اسلام کی نظر میں!
شریعت کے رمز شناس اور اس کی مزاج و مذاق سے آگاہ علماء نےلکھا ہے کہ بنیادی طور پر احکام شریعت کے پانچ مقاصد ہیں، جان کی حفاظت، دین کی حفاظت، عقل کی حفاظت، عزت و آبرو کی حفاظت اور مال کی حفاظت (2)
شریعت کے جتنے بھی احکام ہیں خواہ وہ مرضیات ہوں یا منہیات اور ان کا کیا جانا مطلوب ہو یا ان کا ترک کرنا مقصود ہو، وہ بہرحال انہی پانچ مقاصد
-----------------------------------------------
(1) ردالمحتار 204/5
(2) اصول الفقہ لابی زہرہ ص 344