اس تفصیل کی روشنی میں بنک سے حاصل ہونے والا نفع ربا ہے جس کو بنک میں چھوڑنے سے ایک سودی کاروبار کا تعاون ہوتا ہے اور کبھی ایسی رقوم کا استعمال اسلام کے خلاف بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے اس رقم کو نکال لینا اور نکال کر فقراء و مساکین پر یا رفاہی امور پر خرچ کردینا واجب ہے ۔ البتہ مساجد کی تعمیر میں اس کا استعمال اس کی عظمت و حرمت کے خلاف ہے اس لئے اس سے منع کیا جائے گا ۔ (۱)
سودی قرض لینا کب جائز ہے ؟
سودی قرض لینا کب جائز ہے ؟ ابن نجیم نے اس بارے میں لکھا ہے کہ حاجت مندوں کے لئے سودی قرض لینے کی گنجائش ہے (۲) لیکن یہ مسئلہ کہ کس حاجت کو شرعی حاجت شمار کیا جائے گا ؟ فقہاء کی صراحتوں سے اصولی طور پر اس سلسلہ میں یہ بات منقح ہوتی ہے کہ :
۱۔ عام حالات میں محض معیار زندگی کی بلندی خوب سے خوب تر کی تلاش کے پیش نظر سودی قرض لینا جائز نہیں ۔
۲۔ ضرورت یعنی ایسے حالات میں جب کہ کھانے کپڑے ، علاج وغیرہ کی بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لئے سودی قرض کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور فاقہ مستی کی نوبت ہو تو سودی قرض لینا جائز ہے ۔
۳۔ حاجت کے تحت بھی یعنی جب سودی قرض نہ لینے کی شکل میں شدید مشقت یا ضرر کا اندیشہ ہو تو بھی سودی قرض لینے کی گنجائش ہے ، جیسے غیر شادی شدہ لڑکیوں کی شادی کے لئے اس پر مجبور ہو ۔
--------------------------------------------
(۱) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : جدید فقہی مسائل دوم ۷۳۔ ۲۷۹
(۲) الاشباہ والنظائر مع الغمز ۱؍ ۲۹۴