یعنی دوسرے سمجھدار، دیندار اور ہمدرد افراد کے ذریعہ باہم مصالحت کی کوشش کی جائے گی اور اگر اس طرح آپسی خلش دور ہو جائے تو دونوں میاں بیوی کی طرح زندگی بسر کریں گے۔ لیکن اگر ثالثی اور پنچوں کی کوششوں کے باوجود دونوں میں موافقت پیدا نہ ہو سکے، ایک دوسرے سے متنفر ہوں اور عورت کی طرف سے نامناسب حد تک مسلسل عدول حکمی اور نافرمانی ہو رہی ہو تو اب شریعت طلاق کی اجازت دیتی ہے۔
طلاق کے سدِ باب میں خواتین کا کردار
عورتیں بھی طلاق کے واقعات کم کرنے میں بڑا اور مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان کا چاہیے کہ مختلف طریقوں سے شوہر کو اپنی طرف راغت اور مائل رکھیں اور کوئی ایسی بات پیش نہ آنے دیں جو باہمی نفرت اور آپسی اختلاف کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ پوری طرح شوہر کی مزاج شناس ہوں، وہ زندگی کے ہر گوشہ میں اس بات کا اندازہ لگاتی رہیں کہ وہ کس بات اور کس عمل سے خوش ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناخوش؟ پھر اگر کبھی ناراض ہو جائے تو اس کی کیا مرغوب چیز ہے جس کا سہارا لے کر اس کو خوش کیا جا سکتا ہے؟ کس بات اور کس ضرورت کے اظہار کے لئے مناسب وقت کیا ہے؟ جن خواتین نے اس رمز کو جان لیا اور اپنی ازدواجی زندگی میں اس کا خیال رکھا، ان کی زندگی ہمیشہ خوشگوار رہے گی اور ان شاء اللہ طلاق کی نوبت نہ آئے گی۔
یہ تو ایک اصولی بات ہے اس کے علاوہ چند عمومی باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
اول یہ کہ مرد جب تھک کر اپنے کام سے واپس آئے، اس وقت پوری خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے اور فوراً اپنی کوئی ایسی ضرورت نہ پیش کر دے