سے نکاح کیا جا سکتا ہے ، قرآن مجید نے دو بہنوں کے جمع کرنے کو منع فرمایا ہے (1) حدیث میں پھوپھی ، بھتیجی اور خالہ بھانجی کے جمع کرنے کی ممانعت ثابت ہے (2) ان رشتوں کو باہم نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت قطع رحمی کے سد باب کے لئے ہے ۔ سوکنوں کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جس میں فطری طور پر باہم نفرت ، عداوت اور مخاصمت ومنافست پیدا ہو جاتی پے ۔ شریعت اسلامی نہیں چاہتی کہ الفت ومحبت اور غم خواری وغم گساری کے رشتوں کو قطع رحمی اور باہمی نفرت کے آگ میں سلگائے اور محبت ومودت کا خون کردے
کتابیہ سے نکاح
شرک وکفر ایک ایسا فاصلہ ہے جو اسلامی نقطئہ نظر کے مطابق اہل ایمان سے رشتہ نکاح کے لئے رکاوٹ بن جاتا ہے ، البتہ اس سے صرف اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی عورتوں کا استثناء ہے کہ مسلمان مرد ان سے نکاح کر سکتے ہیں ۔قرآن خود ناطق ہے:
والمحصنات من الذین اوتواالکتاب من قبلکم (مائدہ: 5 ) اور ان کی پارسا ئیں جن کو تم سے قبل کتاب مل چکی ہے ، تمہارے لئے حلال ہیں
اس لئے اہل کتاب عورتوں سے اصولی طور پر نکاح کے جائز ہونے پر کہنا چاہئے کہ اجماع ہے ۔خود حضرت عثمان غنی نے ؛ نائلہ ؛ نامی عیسائی عورت خاتون سے نکاح کیا ہے جو بعد کو مسلمان ہو گئیں اور حضرت طلحہ نے شام کی ایک یہودی خاتون سے (3) البتہ سوال یہ ہے کہ دارا لکفر میں رہنے والی کتابیہ عورت سے نکاح
-----------------------
(1) نساء :32
(2) نیل الاطار 58/6 بحوالہ صھاح ستہ عن ابی ہریرۃ
(3) احکام القرآن للجصاص 324/3