ان کا مال چھیننا اور جہالت ، حرص و لالچ اور غلط آرزوؤں کے پیچھے چلنا ہے ۔۔۔۔۔ تمدن اور تعاون میں اس کا کائی دخل نہیں ہے ۔ نقصان اٹھانے والا خاموش رہ جائے تو غصہ اور افسوس کے ساتھ خاموش رہے گا ۔ لڑے تو ایک ایسی بات پر لڑے گا جس کا سبب وہ خود بنا ہے ۔ فائدہ اٹھانے والا اس جوئے سے لذت اندوز ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کی لالچ میں گرفتار رہتا ہے اور یہ حرص کسی مقام پر جا کر رکتی نہیں ہے ۔ اس کا سلسلہ چل پڑے تو معیشت کو نقصان ہو گا ، باہمی مخاصمت بڑھے گی ۔ معاشی تگ و دو ٹھپ پڑ جائے گی ۔ اور اس تعاون سے جو تمدن کی بنیاد ہے، لوگوں میں اعراض پیدا ہو جائے گا ۔ اگر آپ نے کسی جوئے خوار کو دیکھا ہے تو آپ کو اس کا بخوبی اندازہ ہو گا ۔ " (۱)
جوئے کے نقصانات کا اہم پہلو یہ ہے کہ ایک عادت سی بن جاتی ہے ۔ ایک شخص ہارتا اور نقصان اٹھاتا جاتا ہے اور پھر اپنی بقیہ پونجی کو ایک موہوم فائدہ اور جیت کی امید پر لگاتا چلا جاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ مدہوشی انسان کو مکمل قلاش اور دریوزہ گر بنا کر چھوڑتی ہے اور کبھی کبھی تو معاملہ اس حد تک فزوں ہو جاتا ہے کہ لوگ مال و سرمایہ سے گزر کر عزت و آبرو کا سودا کرنے اُتر آئے ہیں اور بیوی بیٹی تک کی بازي لگا چھوڑتے ہیں والعیاذ باللہ ۔
قمار ایامِ جاہلیّت میں :
ایام جاہلیت میں قمار کا رواج بہت زیادہ تھا ، اس کی زیادہ رائج صورت تھی کہ ان کے پاس کچھ پانسے ہوتے تھے جن پر مختلف مقدار لکھی رہتی
------------------------------------------------------
(۱) حجتہ اللہ البالغہ ۲/۹۸ ۔