اعتم ارخی عمامتہ بین یدیہ ومن خلفہ (۱)۔ بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی اس چھوڑ کے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے (۲)، بعضوں نے ایک بالشت اور بعضوں نے بیٹھنے کی جگہ تک لانبا چھوڑ رکھنے کو کہا ہے (۳)۔ خود حدیث میں اس چھوڑ کے چار انگلی کے مقدار ہونے کا ذکر ہے (۴)۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ ایک بالشت یا اس سے کم اور کبھی ایک ہاتھ کے قریب چھوڑ رکھتے تھے (۵)۔ نووی سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دو طرح کے عمامے تھے۔ بڑا جو بارہ ہاتھ کا تھا اور چھوٹا جو ساتھ ہاتھ کا تھا (۶)، مگر حقیقت یہ ہے کہ عمامہ کی کوئی خاص مقدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اور صریح طور پر ثابت نہیں۔ سیوطی کا بیان ہے "اما مقدار العمامۃ الشریفۃ تلم یثبت فی حدیث"، یہی بات الفاظ کے تھوڑے تغیر کے ساتھ علامہ جزری نے لکھی ہے (۷)۔ البتہ عمامہ کے فضائل کے سلسلہ میں جو روایات نقل کی جاتی ہیں، مثلاً یہ کہ عمامہ کے ساتھ ایک فرض یا نفل پچیس نمازوں کے برابر ہے، تو یہ موضوع ہے (۸)۔ یہی حال اس طرح کی دوسری روایات کا بھی ہے۔
ٹوپی
شریعت کا عام مزاج یہ ہے کہ سر ڈھکا رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر عمامہ کا استعمال فرماتے لیکن بعض اوقات صرف ٹوپی بھی زیبِ تن کرتے۔ عالمگیری میں ہے "لا بأس
---------------------------------------------------------------
(۱) مجمع الزوائد ۵/۱۲۰ و فیہ حجاج بن رشدین و ھو ضعیف۔
(۲) دیکھئے زاد المعاد ۱/۵۰ فصل فی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ط: دار احیاء التراث الاسلامی
(۳) عالمگیری ۲۳۰۔
(۴) مجمع الزوائد ۵/۱۲۰ باب ماجاء فی العمامۃ۔
(۵) تحفہ الاحودّی ۳/۴۹۔
(۶) تحفہ حسن القاری ۳/۴۹۔
(۷) دیکھئے تحفہ الاحوذی ۳/۴۹۔
(۸) تحفہ الاحوذی ۳/۵۱۔