ں اگرآئندہ دن روزہ رکھنے کا ارادہ ہو یامہمان شریک طعام ہوکہ رک جاۓ تو اس کوخجالت ہوگی توایسی صورت میں حسب ضرورت آسودگی سے زیادہ بھی کھاۓ تو مضائقہ نہیں، بھوکے رہنے کی ایسی ریاضیت کہ عبادات وفرائض کی انجام دہی میں بھی وقت پیدا ہوجاۓ، جائز نہیں (1)
فقہاء کے یہاں خوراک کے سلسلہ میں ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ انسان کا بالکل نہ کھانا جوانسان کی ہلاکت کا باعث بن جاۓ یا اتنا کم کھانا کہ انسان عبادت اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لائق بھی نہ رہے، خداکی ایک امانت کے ساتھ بے پرواہی اور تغافل ہے، آسودگی سے بھی زیادہ کھانے میں کہ صحت جسمانی کے لئے مضرہو، بعینہ یہی بات پائی جاتی ہے، کھانا اعتدال کے ساتھ کھایا جاۓ اور نیت عبادت میں سہولت اور فرائض وحقوق کے ادا کرنے میں آسانی کی ہو تو یہی عمل دنیا عین عمل دین اور یہی عادت عین عبادت بن جاتی ہے شریعت اسلامی میں انسانی جان کی اہمیت اس درجہ ہے کہ اگرفاقہ مستی سے جان جانے کا اندیشہ ہو اور مردار کے سوا کچھ اور میسر نہ ہو لیکن مردار نہ کھایاجاۓ یا مسلسل روزے رکھتارہے اور خوردونوش سے گریزاں رہے، یہاں تک کہ موت آجاۓ تو گنہگار ہوگا (2)
کھانے کی نوعیت
حلال وطیب غذاؤں میں جو بھی میسر ہو، کھائی جاسکتی ہے، انسانی طبائع اور اذواق کے اختلاف اور حالات ومقامات نیز موسموں کے فرق کی وجہ سے غذا کی نوعیت میں فرق ایک فطری چیزہے اور اس سلسلہ میں کوئی تعین وتحدید
__________________________________________
(1) مجمع الانہر 524/2
(2) مجمع الانہر 525/2