قرار دیا گیا ہے، احناف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہاں "میتہ" سے تمام مردار مراد نہیں بلکہ صرف مچھلی مراد ہے، اس لئے قرآن نے سمندر اور خشکی کے جانوروں کے فرق کے بغیر تمام ہی مردار کو حرام قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے صرف ایک دریائی جانور مچھلی اور ایک خشکی کے جانور ٹڈی کو مستثنیٰ فرمایا ہے۔ احلت لنا میّتان الحوت والجراد (۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں یہاں "میتہ" سے تمام جانور مراد نہیں ہے، صرف مچھلی کی حلت بیان کرنا مقصود ہے، خیال ہوتا ہے کہ احناف کی رائے زیادہ قوی اور شریعت کے مزاج و مذاق سے زیادہ قریب ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ عرب کا خطہ ساحل سمندر پر واقع ہے، خود پیغمبر اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ عالی مقام سے سوائے مچھلی کے کسی اور دریائی جانور کا کھانا ثابت نہیں۔ وللہ اعلم۔
خشکی کے جانور
جانوروں کی دوسری قسم وہ ہے جو خشکی کے جانور کہلاتے ہیں، یہ تین طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن میں خون بالکل نہیں پایا جاتا جیسے ٹڈی، بھڑ، مکھی، مکڑا، وغیرہ۔ ایسے حیوانات میں ٹڈی کے سوا سب کے حرام ہونے پر اتفاق ہے، دوسرے وہ جن میں خون ہے لیکن بہتا ہوا خون نہیں ہے، جیسے سانپ، چھپکلی اور تمام حشرات الارض، ان کے حرام ہونے پر بھی اتفاق ہے سوائے گوہ (ضب) کے جو امام شافعی رحمۃ اللہ اور بعض فقہاء کے نزدیک حلال اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک حرام ہے (۲)۔ تیسرے وہ جن میں بہتا ہوا خون موجود ہے۔ یہ بھی دو طرح کے ہیں، ایک پالتو جانور اور دوسرے
----------------------------------------------------------------
(۱) ابن ماجہ ص : ۲۳۲، باب صید الحیتان والجراد
(۲) المغنی ۹/۲۳۶۔ شرح مہذب ۹/۱۲۔ بدائع ۵/۳۶۔