ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
|
راتیں قیام فرما رہے اَور) جب تین دِن گزر گئے تو آپ نے اَپنی سواری پر کجاوہ باندھنے کا حکم دیا چنانچہ کجاوہ باندھ دیا گیا، آپ وہاں سے روانہ ہوئے صحابہ کرام بھی آپ کے پیچھے ہو لیے، صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہمارا خیال تو یہ تھا کہ آپ اَپنے کسی کام سے جا رہے ہیں (خیر جب آپ اُس کنویں پر پہنچے جس میں سردارانِ قریش کی نعشیں ڈالی گئی تھیں تو) آپ اُس کنویں کے کنارے کھڑے ہو گئے اَور اُن سرداروں کو اُن کا اَور اُن کے باپ دادا کا نام لے کر پکارنے لگے، اے فلاں بن فلان، اے فلان بن فلان کیا اَب تمہیں اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ اَور اُس کے رسول کی اطاعت کر لیتے ،بلا شبہ ہمیں تووہ چیز حاصل ہو گئی جس کا ہم سے ہمارے رب نے وعدہ کیا تھا اَورکیا تم نے بھی وہ چیز پالی جس کا تم سے تمہارے پروردگار نے وعدہ کیا تھا (یعنی تمہارے عذاب کا، مطلب یہ ہے کہ ہم کو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق فتح و کامیابی حاصل ہوئی کیا تم کو بھی عذاب مِلا جس سے تمہیں تمہارے پروردگار نے ڈرایا تھا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (آپ کی یہ گفتگو سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ کیا آپ ایسے جسموں کو مخاطب کر رہے ہیں جن میں رُوحیں نہیں ہیں ؟ نبی کریم ۖ نے فرمایا قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں محمد کی جان ہے اِن جسموں سے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم اُس کو اِن سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، (ایک روایت میں ہے کہ تم اِن سے زیادہ سننے والے نہیں ہوں لیکن فرق صرف اِتنا ہے کہ تم جواب دینے پر قادر ہو اَور یہ جواب نہیں دے سکتے)۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اِن سردارانِ قریش کو (آنحضرت ۖ کے خطاب کے وقت) زِندہ کردیا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی بات اُنہیں سنادیں جس سے اِن کو سر زنش ہو اَور وہ ذلت و خواری اَور اَفسوس و پشیمانی کومحسوس کریں۔