ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
خبر حضرت عمر کو ہوئی، آپ نے بلوا بھیجا اَور فرمایا کہ اے میرے بھتیجے تم کیوں واپس چلے گئے ؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ جب حضرت عبداللہ کو اِجازت نہ مِلی تو ہم کو کیسے ملے گی۔ آپ نے فرمایا اے میرے بھتیجے تمہاری اَور عبداللہ کی کیا برابری ! اِبن ِ عباس سے روایت ہے کہ جب مدائن فتح ہوا، مالِ غنیمت آیا تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ مسجد میں فرش بچھا دیا جائے اَور اُس پر مال کے ڈھیر لگادیے جائیں پھر تمام صحابہ کرام جمع کیے گئے تو آپ نے سب سے پہلے حضرت حسن کو ایک ہزار درہم دیے پھر حضرت حسین کو ایک ہزار، اِس کے بعد اَور لوگوں کو تقسیم کیے اَور اَپنے فرزند حضرت عبداللہ کو پانچ سو درہم دیے۔ اُنہوں نے کہا امیر المومنین میں رسول اللہ ۖ کے زمانے میں جہاد کرتا تھا اَور حسین تو اُس وقت بچے تھے مگر آپ نے اُن کو ہزار درہم دیے اَور مجھ کو پانچ سو۔ تو آپ نے فرمایا اچھا جیسے باپ اُن کے ہیں ویسا اَپنا باپ دِکھلاؤ۔ اَور اُن کی ماں کی ایسی ماں، اَور اُن کے نانا کا ایسا نانا، اَور اُن کی نانی جیسی نانی اَور اُن کے چچا کا ایسا اپنا چچا اَور اُن کے ماموں کا ایسا اَپنا ماموں اَور اُن کی خالہ کی ایسی اَپنی خالہ پیش کرو ورنہ اَب کبھی اُن کی برابری ١ نہ کرنا۔ سنو! اُن کے والد علی مرتضیٰ ہیں اَور اُن کی ماں فاطمة الزہرا اَور اُن کے نانا محمد مصطفی ۖ ہیں اَور اُن کی نانی خدیجة الکبری اَور اُن کے چچا جعفر بن اَبی طالب ہیں اَور اُن کے ماموں اِبراہیم فرزند ِ رسولِ خدا ۖ ہیں اَور اُن کی خالہ رُقیہ اَور اُم ِ کلثوم ہیں جو رسولِ خدا ۖ کی صاحبزادی ہیں۔ ایک مرتبہ کسی نے اَمیر المومنین حضرت اُم سلمہ سے اَپنے کسی حق کا تقاضا کیا اَور کوئی گستاخی کی تحریر بھیجی، اِس کی خبر حضرت عمر کو ہوئی تو آپ نے حکم دیاکہ اِس شخص کو تیس دُرّے مارے جائیں۔ (جاری ہے) ١ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے حسنین رضی اللہ عنہما کے والد علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے اَپنے کو کمتر بتلایا یہ اِن کی تواضع تھی ورنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اِن کا اَفضل ِ اُمت ہونا قطعی ہے ۔ سچ ہے کہ راہ اِیں اَست سعدی کہ مردانِ راہ بہ عزت نہ کردن بر خود نگاہ