ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
|
کیسی عجیب بات ہے کہ ایک دینی اِدارہ کی سربراہ ہو اَور اُس کا عزم و حوصلہ قائدانہ ہونے کے بجائے مقتدیانہ ہوجائے ! بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ دُوسروں کو تلقین کرتے کرتے جب اَپنی باری آئے توبادِ مخالف کے ہلکے سے تھپیڑے کے آگے ہمت ڈھیر ہوجائے۔ اگر دین کے معلمین و مبلغین کا بودا پن اِس حال کو پہنچ جائے تو پھر ہمارے دین اَور قومی روایات ،ثقافت و تہذیب کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کاآسماں کیوں ہو اگرچہ اَپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے نامور بزرگوں اَور علماء کے گھرانے بھی اِس سرکش طوفان کی طغیانی کی تاب نہیں لاسکے مگراِن سطور سے ہمارا مقصد خدانخواستہ کسی کی تحقیر و تذلیل نہیںبلکہ ایک ''اِعلانیہ لغزش''پر بطورِ نصیحت آگاہ کرنا مقصودہے۔ حدیث میں آتا ہے اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَةُ ''دین (اَ پنی اَور دُوسروں کی) خیر خواہی کا نام ہے '' اِس لیے یہ تلخ گزارش دُوسروں سے پہلے خود میرے اَپنے نفس کے لیے بھی ہے۔خود راقم الحروف بھی اَپنے قریبی عزیزوں کی دینداری کے اِعتبار سے بے ثباتی پر شرمسار بھی ہوتا ہے اَور دُعا گو بھی۔ مگر جو بالفعل دین کا معلم اَور مبلغ ہو، نیک شہرت کا حامل بھی ہو اُس کی طرف سے اِس قسم کی ''اِعلانیہ'' بے اِستقلالی یقینًا دُکھ اَور اَفسوس کی چیز ہے ۔ موصوفہ حضرت والد ماجدرحمة اللہ علیہ سے غالبًا بیعت کا تعلق بھی رکھتی ہیں اِس لیے اِس موقع پر اُس دعوت نامہ کا عکس بھی شائع کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو راقم الحروف کی تقریب ِ ولیمہ پر حضرت رحمة اللہ علیہ نے اَپنے دست ِ مبارک سے تحریر فرماکر مدعوین کو اِرسال فرما یا تھاتاکہ اَنگریزی دعوت ناموں کے مقابلہ میں اپنی قومی اَور علاقائی زبانوں سے مزین با وقاردعوت ناموں کی عملی تصویر بھی نظر سے گزر جائے۔