ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
|
عربی زبان اَپنی عمر کے اِعتبار سے اِن سب سے بزرگی میں برتر ہے آج سے تیرہ صدیوں پہلے دُوسری صدی ہجری کے وسط میں خلیل بن اَحمد نے اِس کی پہلی لُغت شائع کی۔ عمر کے اِعتبار سے پہلا رُتبہ عربی، دُوسرا اُردو، تیسرا اَنگریزی کو حاصل ہے دُنیا نے اَنگریزی کو صرف رابطہ زبان کے طور پر اِختیار کیا ہے لیکن اَپنی قومی و علاقائی زبانوں پر کسی نے اِس کو ترجیح نہیں دی سوائے بر صغیر میں کہ جہاں ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش پر فرنگی کے غاصبانہ اِقتدار سے مرعوب ہو کر چند ٹکوں کی خاطر نوابوں، سرداروں، وڈیروں اَور اُن کے ماتحتوں نے حریت پر غلامی کو ترجیح دیتے ہوئے اَپنا سب کچھ فرنگیوں کے ناپاک اِقتدار پر نچھاور کردیا ۔ علماء ِ حق کی سیاسی اَورجہادی کوششوں اَور بے مثال قربانیوں کے نتیجہ میں فرنگی کو ہندوستان سے اَپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا مگر اَپنے پیچھے مسلمانوں ہی میں سے ایسے بے ضمیر اَور بے غیرتوں کی ایک بہت بڑی فوج چھوڑ گیا جو اَپنے کو اُس کی ذُرِّیت کہلانے پر فخر کرتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں فرنگی کی ذُرِّیت ہی کا اِقتدار تاحال جاری ہے جس کی چھاپ یہاں کے عوام پر بھی دِن بدن گہری ہوتی چلی جارہی ہے اِس کے اَندھیروں میں ہماری زبان ثقافت و روایات حتی کہ مذہب بھی گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ جون کے وسط میں میرے پاس ایک ولیمہ کا دعوت نامہ آیا جو حسب ِ دستور اَنگریزی میں تھا پاکستان کے رہائشی اُردو،پنجابی، پشتو، بلوچی اَور سندھی بولنے والوں کے اَنگریزی دعوت ناموں پر مجھ کو ہمیشہ دُکھ اَور اَفسوس تو ہوتا ہی ہے مگر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ ہماری قوم نے اِس کو روز کا معمول بنالیا ہے مگر اِس دعوت نامہ پر اَفسوس کے ساتھ ساتھ حیرت اَور اِنتہائی دُکھ بھی ہوا کیونکہ یہ ایک ایسی محترمہ کی طرف سے اَپنے بیٹے کے ولیمہ کا دعوت نامہ تھا جو عالمہ فاضلہ ہونے کے ساتھ ساتھ بنات کے دینی اِدارہ کی سربراہ بھی ہیں جن کا صبح و شام کا وظیفہ ہی یہ ہونا چاہیے کہ وہ آنے والی نسلوں کو ''آگہی'' کے جوہر سے آراستہ کریں ،اُنہیں ایسی بینائی عطا کریں جو اُن کی فکر کو روشن کر کے غلامی کے اَندھیروں سے باہر کھینچ لائے اَور وہ ''نابینا'' سے ''بینا'' بن جائیں ۔