ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
اللہ کو جھٹلانا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِن دونوں جملوں کی وضاحت میں کہ فَاَمَّا تَکْذِیْبُہُ اِیَّایَ اِنسان نے جو مجھے جھٹلایا ہے اُس کا مطلب کیا ہے ؟ اُس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ لَنْ یُّعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَأَنِیْ اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ نہیں اُٹھائیں گے، مرنے کے بعد قصہ ختم ہوجائے گا یہ گویا اُس نے میری بات کو جھٹلایا۔ اَور یہ بہت بڑی بنیاد ہے تمام اَعمال کی نیکیوں کی بنیاد آخرت کا عقیدہ ہے اَگر آخرت پر اِعتقاد ہو اَور اِیمان ہو تو بہت سے گناہ اِنسان نہیں کرتا بچ جاتا ہے تو یہ جو فرمایا کہ لَنْ یُّعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَأَنِیْ اِنسان یہ کہتا ہے کہ ہر گز مجھے وہ نہیں لوٹائے گا جیسے اُس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ حق تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں وَلَیْسَ اَوَّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہ عقل سے بھی سمجھ سکتا ہے آدمی کہ پہلی دفعہ جو پیدا فرمایا ہے اِنسان کو تو پہلی دفعہ کام مشکل ہو اکرتا ہے دوبارہ کرنا مشکل نہیں ہوتا عقلی طور پر سمجھ میں آتی ہے یہ بات تو پہلی دفعہ پیدا کرنا اَور دوبارہ اُس کو اُٹھانا اِن دونوں میں آسان کو ن سا ہے ؟ تو دوبارہ اُٹھانے میں کیا مشکل بات ہے جب اُس نے پیدا فرمایا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دوبارہ اُٹھاسکتا ہے اَور اُس نے فرمایا میں دوبارہ اُٹھاؤں گا اَور حساب ہوگا اَعمال پیش ہوں گے ۔ اللہ کو گالی دینا : دُوسری بات وَاَمَّا شَتْمُہ اِیَّایَ اِنسان جو مجھے برا کہتا ہے جو مجھے بری لگتی ہے بات جیسے گالی کسی کو بری لگتی ہو وہ یہ ہے کہ اِتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا اللہ کا بیٹا ہے تو اللہ کے بیٹے ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اُس کے بیوی بھی ہے اَور بیوی ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ محتاج ہے بیوی کامحتاج ہے بیوی کی ضرورت ہے اُسے جبکہ وہ ایسا ہے کہ اُس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے خود اُس کو،اُس کی ذات کو کسی چیز کی ضرورت نہیں اَور سب اُس کے محتاج ہیں۔'' اللہ'' اُس ذات کو کہتے ہیں کہ جسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہو اَور سب اُس کے محتاج ہوں وہ '' اللہ '' ہے۔ تو یہ جو وہ کہتا ہے اِس طرح سے اِتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا حالانکہ میں یکتا ہوں میں بے نیاز ہوں