ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
آسماں مجبور ہیں شمس و قمر مجبور ہیں اَنجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں یہی جبری قانون اِنسان پر بھی حاوی ہے کہ وہ قدموں کے بل چل سکتا ہے سر کے بل نہیں چل سکتا۔ اِنسان کے لیے اِختیاری قانون : لیکن اِنسان کے لیے اِختیاری قانون بھی ہیںجس کا کرنا نہ کرنا اُس کے اِختیار میں ہے، اِس لیے اِنسان فاعلِ مختار ہے، اِسی اِختیار پر حسن وقبح نقص و کمال ثواب و عقاب کامدار ہے ۔ اِس قانونِ اِختیاری کا دُوسرا نام اگر خدا نے بنایا ہو تو قانونِ شریعت ہے ،اگر بنانے والا اِنسان ہو تو اُس کا نام قانونِ اِنسان ہے خواہ بنانے والا ایک فرد ہو ،بادشاہ یا ڈکٹیٹر یا جماعت ہو یا پارلیمینٹ لیکن نفس قانونِ اِختیاری کی ضرورت تمام اَقوام میں مسلّم ہے، اِس لیے کوئی مُلک اَور کوئی حکومت قانون سے خالی نہیں، اَب ہم کو یہ طے کرنا ہے کہ قانونِ اِختیاری اِنسان کا حق ہے یا خدا کا، اِس لیے ضروری ہے کہ ہم ضرورتِ قانون کی اَصلی وجہ یا وجوہات بیان کریں۔ اِنسان میں جب تک خواہش موجود ہے وہ دُوسروں کا حق مارنے سے دَریغ نہیں کرے گا اَور جب تک اُس میں غضب کا جذبہ موجود ہے وہ دُوسروں سے دَست و دَرازی سے باز نہیں آئے گا، پہلی صورت میں مال کو خطرہ ہوگااَ ور دُوسری صورت میں جان کو، جن کے تحفظ کے لیے دِیوانی و فوجداری قوانین کا وجود ضروری ہے تا کہ مال و جان محفوظ رہ سکے کیونکہ یہ تو ممکن نہیں یہ دونوں فطری جذبے جو لوازماتِ اِنسانیت سے ہیں موجود ہوں اَور اُن کے نتائج موجود نہ ہوں، اَب اِقامت ِعدل اَور تحفظ حقوق اِنسانیہ کے لیے قانون سازی کیا اِنسان کا حق ہے یا خدا کا ؟ یہ فیصلہ آسانی سے سمجھ میں آسکے گا جب مندرجہ ذیل اُمور ذہن نشین ہوں، قانون ساز قو ت میں مندرجہ ذیل اُمور کا پایا جانا ضروری ہے : (١) علمِ تام (٢) عدلِ کامل (٣) رحمت وشفقت ِکاملہ (٤) غیر جانبداری