ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
جس کو ناجائز فعل سے اِطمینان ہو اُس کو بھی پردہ کرنا ضروری ہے : اگر کوئی شخص یہ کہے کہ (عورتوں کی طرف دیکھنے کی بات کرنے کی) ممانعت اِس لیے ہے کہ کہیں ناجائز فعل نہ ہوجائے اَور مجھ کو اِطمینان ہے کہ مجھ سے کوئی ناجائز فعل نہ ہوگا تو پس ایسی حالت میں کلام کرنا درست ہونا چاہیے ۔ تو یہ بھی ہر گز جائز نہیں ہو سکتا اَور یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ اِس میں رفتہ رفتہ عشق و محبت بڑھ جائے گاپھر اَپنی طبیعت قابو میں نہ رہے گی اَور بو س و کنار وغیرہ بھی سرزد ہوجائے گا جو کہ حرام ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو چاہیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہے اُس کے پاس ہر گز نہ پھٹکیں ورنہ خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ (مقالاتِ حکمت ملحقہ دعوات عبدیت ) پاک دامن اَور پاکیزہ دِل والوں سے پردہ : (جب حضور ۖ خود پردہ کا اہتمام فرمائیں اَور دُوسری عورتوںکا) اَپنے سے پردہ کرائیں تو کون سا پیر اَور کون سا رشتہ دَار ہے جس سے بے حجابی جائز ہوگی ؟ خواہ کوئی خالو ہو یا پھوپھا، دادا لگتا ہے یا چچا ،اگر محرم نہ ہو تووہ بھی اَجنبی ہے۔ بڑا ظلم و ستم ہے کہ عورتوں کو اِس کی کچھ پرواہ نہیں ہے، ہم نے مانا کہ تمہارا دِل پاک ہے لیکن تم کو دُوسرے کی کیا خبر ؟ اگر کہو کہ دُوسرا بھی پاک ہے توتو بہ توبہ خدا اَور رسول ۖ کو تم نے ظالم قرار دیا کہ باوجودیکہ یہ پاک تھا پھر بھی اِس سے پردہ کاحکم دیا اگر یہ (نامحرم رشتہ دَار) پاک و صاف ہوتے تو حق تعالیٰ ضرور اُن کا نام لکھ دیتے کہ فلاں شخص پاک ہے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے کہ کون پاک ہے اَور کون نہیں ،اَنبیاء سے تو زیادہ کوئی نہیں ہو سکتا ،یوسف علیہ السلام باوجود نبی ہونے کے فرماتے ہیں ( وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّا رَة بِالسُّوْئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ) یعنی میں اَپنے نفس کو بری نہیں کرتا ہوں ،نفس تو بُری بات ہی کا حکم کرنے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحمت فرمائے وہ مستثنیٰ ہے۔