ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
وَاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ اَور '' صَمَدْ '' کے معنٰی بہت وسیع ہوتے ہیں اَلَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ میری ذات وہ ہے کہ نہ میں نے پیدا کیا ہے کسی کو نسلی طور پر اَور نہ میں نسلی طور پر پیدا ہوا ہوں جیسے تناسل ہوتا ہے بلکہ میں خود بخود ہوں وَلَمْ یَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَد ١ اَور میرا کوئی ہمسر نہیں ۔ '' کُفُوْ '' ہمسر کو کہتے ہیںجیسے فلاں خاندان فلاں خاندان کے برابر ہے اُس کا کفو ہے اُن میں بیاہ شادیاں ہوتی ہیں آپس میں، وہ ہم پلہ ہیں(تو فرمایا کہ) وہ بات میرے ساتھ کسی کی بھی نہیں ہے۔ دُوسرے کلمات اِسی حدیث شریف کے حضرت عبداللہ اِبن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ یہ ہیں کلمات فَقَوْلُہ لِیْ وَلَد وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَ صَاحِبَةً اَوْ وَلَدًا ٢ جو مجھے گالی دینا ہے برا کہنا ہے گالی کے برابر، وہ یہ ہے کہ وہ یہ کہے کہ میرا بیٹا ہے کوئی میرے اَولاد ہے کوئی وَسُبْحَانِیْ اَور میری ذات پاک ہے بہت بر تر ہے بہت بالا ہے اِن چیزوں سے اَنْ اَتَّخِذَ صَاحِبَةً کہ میرے کوئی بیوی ہو اَوْ وَلَدًا یا اَولاد ہو یہ سب محتاجوں کے کام ہیں۔ اِنسان تو ہے محتاج ٹھیک ہے اُس کو بیوی کی بھی ضرورت ہے پھر بچوں کی بھی ضرورت ہے پھر ترکہ کے سنبھالنے کے لیے بچوں کی ضرورت ہے پتہ نہیں کس کس چیز کے لیے ضرورت سوچتا ہے تو یہ تو اِنسان کے لیے ہے جو فانی ہے، جو ہمیشہ سے ہے اَور ہمیشہ تک ہے اُس کے لیے تو یہ بات نہیں ہو سکتی۔ تو حق تعالیٰ نے یہ عقیدہ اَنبیائِ کرام کے ذریعہ پہنچایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے وہ یکتا ہے وہ اَکیلا ہے وہ ہمیشہ سے ہے سب کو اُس نے پیدا فرمایا اَور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا۔ اَور اِسی طرح سے یہ عقیدہ کہ حق تعالیٰ دوبارہ اُٹھائیں گے اِنسان کو اَور اُس کا حساب ہوگا جس طرح پہلی دفعہ پیدا ہوا ہے اِسی طرح دوبارہ حق تعالیٰ زندگی عطا فرمائیں گے اَور خدا کے سامنے پیش ہوگا ،یہ دو عقیدے اِس حدیث شریف میں بتلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِسلام پر اِستقامت دے اَور آخرت میں رسول اللہ ۖ کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین ۔ اِختتامی دُعا ........ ١ مشکٰوة کتاب الایمان رقم الحدیث ٢٠ و بخاری شریف کتاب التفسیر رقم الحدیث٤٩٧٤ ٢ مشکٰوة کتاب الایمان رقم الحدیث ٢١ و بخاری شریف کتاب التفسیر رقم الحدیث٤٤٨٢