ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
نہ ہی ایک گھر میں اِس طرح نباہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نامحرموں کے سامنے بقدر ِ ضرورت چہرہ کا کھولنا جائز مگر باقی تمام بدن سر سے پیر تک لپٹا (چھپا) ہوا ہونا چاہیے، کفوں کے چاک سے ہاتھ نہ جھلکیں ،گریبان کھلا ہوا نہ رہے ،بٹن اچھی طرح لگے ہوئے ہوں تاکہ گلااَور سینہ نہ جھلکے، دو پٹہ سے تمام سر لپٹا ہوا ہو کہ ایک بال بھی باہر نہ رہے، اِس طرح بدن کو چھپا کر اُن کے سامنے منہ کھول کر گھر کا کام کاج کر سکتی ہیں۔ اَور یہی کافرعورتوں کاہے کہ اُن کے سامنے صرف چہرہ اَور ہاتھ اَور پیر کھولنا جائز ہے باقی تمام بدن کا اُن سے چھپانا واجب ہے کہ سر کا بال بھی اُن کے سامنے نہ کھلے۔ عورتیں بھنگنوں اَور چماریوں (غیر مسلم عورتوں) سے بالکل اِحتیاط نہیں کرتیں حالانکہ اُن سے بھی چہرہ اَور دونوں ہتھیلی اَور پیروں کے علاوہ باقی بدن کا شرعًا ویسا ہی پردہ ہے جیسے نامحرم مردوں سے ہے۔ ضرورت کے وقت نامحرم کے سامنے آنے کا طریقہ : جس کو نامحرم کے سامنے کسی ضرورت سے آنا پڑتا ہو اُس کو چہرہ اَور دونوں ہاتھ گٹے تک اَور دونوں پاؤں ٹخنے تک کھولنا جائز ہے ،اِس صورت میں اگر بدنگاہی سے کوئی دیکھے گا تووہ گنہگار ہوگا اِس پر کوئی اِلزام نہیں۔ لیکن اَور تمام بدن موٹے کپڑے سے اَور اِس میں بھی بہتر یہ ہے کہ کپڑا سفید اَور سادہ ہو مکلف نہ ہو ڈھکا ہوا ہونا چاہیے، خوشبو وغیرہ بھی نامحرم کے سامنے لگا کر نہ آنا چاہیے۔ زیور جہاں تک ممکن ہو چھپاہوا ہو، بہت باتیں بالخصوص بے تکلفی اَور لطف کی باتیں غیر محرم سے نہ کرے۔ پردہ کا لحاظ کرنے کی وجہ سے رشتہ دَاروں میں تعلقات کی خرابی کا شبہ : بعض عورتیں جو دِیندار ہیں وہ سب نامحرموں سے پردہ کرتی ہیں حتی کہ چچا زاد بھائی سے بھی اِن کے اُوپر بڑے طعنے ہوتے ہیں کہ بھلا بھائی سے بھی کہیں پردہ ہوتا ہے ۔عورتوں کے نزدیک چچا کا لڑکا توایسا ہے جیسے سگا بھائی۔ عورتیں تو عورتیں ایسے پردہ سے مرد بھی خفا ہیں۔ کسی نے ہمت کر کے اَپنے قریبی نامحرم رشتہ دَاروں (جن سے نکاح ہو سکتا ہے) سے بھی پردہ کرنا شروع کیا تو اَب چاروں طرف