ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
اِس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا اُمیدوار اپنے پنج سالہ دَور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا ہم بھی اُس کے شریک سمجھے جائیں گے۔ ٭ تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ والا اُس اُمیدوار کو اَپنا نمائندہ اَور وکیل بناتا ہے لیکن اگر یہ وکالت اُس کی کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اَور اُس کا نفع نقصان صرف اُس کی ذات کو پہنچتا تو اُس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اُس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے اِس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اِس کی گردن پر رہا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت، دُوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجبِ ثواب ِعظیم ہے اَور اُس کے ثمرات اِس کو ملنے والے ہیں اِسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اَور بری سفارش بھی اَور ناجائز وکالت بھی اَور اِس کے تباہ کن ثمرات بھی اِس کے نامہ اَعمال میں لکھے جائیں گے۔ ضروری تنبیہ : مذکور الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق اَور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے اِسی طرح ایک اچھے نیک اَور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔ قرآنِ کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے اِسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔ اِرشادِ باری ہے : (کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ) اَور دُوسری جگہ اِرشاد ہے : ( کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ )اِن دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں۔ اللہ کے لیے اَدائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہو جائیں۔