ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
عام اَخلاق وحالات : ٭ ١٣ھ میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسند ِ آرائے خلافت ہوئے اَور تھوڑے ہی دِنوں میں ایک چھوٹی سی اِسلامی ریاست کو مُلک ِ عظیم بنادیا جیسا کہ رسولِ خدا ۖ کو پہلے ہی بذریعہ ١ وحی کے اِطلاع دی گئی تھی۔ مزاجِ مبارک میں سختی زیادہ تھی غصہ جلد آتا تھا بالکل حضرت موسٰی علیہ السلام کی سی کیفیت تھی مگر اِس کے ساتھ دو صفتیں بھی عجیب و غریب تھیں ۔ اَوّل یہ کہ اَپنی ذات کے لیے کبھی غصہ نہ آتا تھا، دوم یہ کہ عین اِشتعال کی حالت میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا نامِ پاک آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے لے لیتا یا قرآنِ مجید کی کوئی آیت پڑھ دیتا تو فورًا غصہ دفع ہوجاتا گویا تھا ہی نہیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو لوگ آپ کی سخت گیری سے اِس قدر خوفزدہ ہوئے کہ گھروں سے باہر نکل کر بیٹھنا چھوڑ دیا۔ یہ حالت دیکھ کر آپ نے خطبہ پڑھا اَور اُس خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ : ''اے لوگو ! میری سختی اُس تک وقت تھی جب تک تم لوگ رسولِ خدا ۖ کی اَور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی نرمیوںاَور مہر بانیوں سے فیضیاب تھے۔ میری سختی اُن کی نرمی کے ساتھ مِل کر اِعتدال کی راہ پیدا کردیتی تھی مگر اَب میں ہی تمہارا والی ہوں اَب میں تم پر سختی نہ کروں گا، اَب میری سختی صرف ظالموں اَور بدکاروں پر ہوگی۔ اِسی خطبہ میں آپ نے اِرشاد فرمایا کہ اے لوگو ! اگر میں سنت ِنبوی اَور ١ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک روز رسولِ خدا ۖ نے اَپنا خواب صحابہ کرام سے بیان فرمایا (اَنبیائِ کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی ٔخداوندی ہے) کہ میں نے اَپنے کو دیکھا کہ ایک کنویں سے پانی بھر رہا ہوں، تھوڑی دیر میں آکر اَبوبکر نے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا اَور ایک ڈول بلکہ دو ڈول اُنہوں نے نکالے پھر عمر بن خطاب نے اُن سے لے لیا اُن کے ہاتھ میں جاتے ہی ڈول پُربھر گیا اَور میں نے کسی زور آور کو اِن کے مثل اِتنا بڑا پُر بھرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔