ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
قسط : ٢١ پردہ کے اَحکام ( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ) نا محرم رشتہ دَاروں سے پردہ : ایک کوتاہی عورتوں کی یہ ہے کہ اُن میں پردہ کا اہتمام کم ہے اَپنے رشتہ داروں میں جو نامحرم ہیں اُن کے سامنے بے تکلف آتی ہیں۔ ماموں زاد، چچا زاد، خالہ زاد بھائیوں سے بالکل پردہ نہیں کرتی ہیں اَور غضب یہ ہے کہ اُن کے سامنے بناؤ سنگار کر کے بھی آتی ہیں پھر بدن چھپانے کا ذرا اہتمام نہیں کرتیں۔ گلا کھلا اَور سر کھلا ہوا ہے اَور اُن کے سامنے آجاتی ہیں اَور اگر کسی کا سارا بدن ڈھکا ہوا بھی ہو تو کپڑے ایسے باریک ہوتے ہیں کہ جن میں سارا بدن جھلکتا ہے حالانکہ باریک کپڑے پہن کر محارِم کے سامنے بھی آنا جائز نہیں کیونکہ محارم سے ماتحت الازار (یعنی ناف کے نیچے کے حصہ ) کے علاوہ پیٹ اَور کمر اَور پہلو اَور پسلیوں کا چھپانا بھی فرض ہے۔ پس ایسا باریک کرتہ پہن کر محارِم کے سامنے آنا بھی جائز نہیں جس سے پیٹ یا کمر یا پسلیاں ظاہر ہوں یا اِن کا کوئی حصہ نظر آتا ہو۔ شریعت نے تو محارِم کے سامنے آنے میں بھی اِتنی قیدیں لگائی ہیں اَور آج کل کی عورتیں نامحرموں کے سامنے بھی بے باکانہ آجاتی ہیں گویا شریعت کا پورا مقابلہ ہے۔ اے عورتو ! پردہ کا اہتمام کرو اَور نامحرم رشتہ دَاروں کے سامنے قطعًا نہ آؤ اَور محارِم کے سامنے اِحتیاط سے آؤ۔ (الکمال فی الدین للنساء ص ١٠٨) زینت و مواقعِ زینت کی تفصیل اَور اُن کا شرعی حکم : ( وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ) اَور اَپنی زینت کے مواقع کو ضائع نہ کریں۔ ''زینت'' سے مراد