ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
''اِمام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں، موسیٰ بن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرتِ مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا اَورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نمازوں کی فرضیت نازل ہونے سے پہلے ہو چکی تھی ۔اِمام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا واقعہ بعثت ِنبوی کے سات سال بعد ہوا ہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ واقعہ معراج بعثت ِنبوی سے پانچ سال بعد ہوا ہے ۔ اِبن اسحٰق کہتے ہیں کہ واقعہ معراج اُس وقت پیش آیا جبکہ اِسلام عام قبائلِ عرب میں پھیل چکا تھا ۔اِن تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ واقعہ معراج ہجرت مدینہ سے کئی سال پہلے کا ہے ۔ حربی کہتے ہیں کہ واقعۂ اسراء و معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے۔ اَوراِبن قاسم ذہبی کہتے ہیں کہ بعثت سے اَٹھارہ مہینے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے۔حضراتِ محدثین نے روایاتِ مختلفہ ذکر کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کن چیز نہیں لکھی اَورمشہور عام طورپر یہ ہے کہ ماہِ رجب کی ستائیسویں شب ، شب ِمعراج ہے۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔'' (معارف القرآن ج٥ ص٤٤٢ و ٤٤٣) حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہم فرماتے ہیں :''٢٧ رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِمعراج ہے اَوراِس شب کو بھی اِسی طرح گزرانا چاہیے جس طرح شب ِقدر گزاری جاتی ہے اَور جو فضیلت شب ِقدر کی ہے ،کم و بیش شب ِمعراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ''شب ِمعراج کی فضیلت شب ِقدر سے بھی زیادہ ہے۔ ''اَور پھر اِس رات میںلوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص