ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
کرنے کی کوشش کی ہے، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اِس سے متعلق تحریر فرماتے ہیں : ''ہمارے نزدیک قرآنِ کریم کے ''سات حروف'' کی سب سے بڑی بہتر تشریح اَور تعبیر یہ ہے کہ حدیث میں ''حروف کے اِختلاف'' سے مراد قراء توں کا اِختلاف ہے اَور سات حروف سے مراد اِختلاف ِ قراء ت کی سات نوعیتیں ہیں چنانچہ قرائتیں تو اگرچہ سات سے زائد ہیں لیکن اِن قراء توں میں جو ا ِختلافات پائے جاتے ہیں وہ سات اَقسام میں منحصر ہیں۔'' ( علوم القرآن ص ١٠٦) اِختلافِ قرا ء ت کی سات نوعیتیں کیا ہیں اِن کو بیان کرتے ہوئے مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں :''یہ سب حضرات تو اِس بات پر متفق ہیں کہ حدیث میں سات حروف سے مراد اِختلاف ِ قراء ت کی سات نو عیتیں ہیں لیکن پھراِن نوعیتوں کی تعیین میںاِن حضرات کے اَقوال میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک نے قراء ت کا اِستقراء اَپنے طور پر اَلگ اَلگ کیا ہے، اِن میں جن صاحب کااِستقراء سب سے زیادہ منضبط مستحکم اَور جامع ومانع ہے، وہ اِمام اَبو الفضل رازی رحمہ اللہ ہیں،وہ فرماتے ہیں کہ قراء ت کا اِختلاف سات اَقسام میں منحصر ہے : (١) اسماء کا اِختلاف، جس میں اِفراد، تثنیہ وجمع اَور تذکیرو تانیث دونوں کا اِختلاف داخل ہے، (اِس کی مثال وہی تَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ)ہے جو ایک قراء ت میں تَمَّتْ کَلِمَاتُ رَبِّکَبھی پڑھا گیا ہے۔) (٢) اَفعال کا اِختلاف، کہ کسی قراء ت میں صیغۂ ماضی ہو، کسی میں مضارع اَور کسی میں اَمر (اِس کی مثال رَبَّنَابَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا) ہے کہ ایک قراء ت میں اِس کی جگہ رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی آیا ہے۔)