ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
مدنی زندگی کا اَکثر حصہ غزاوات و سرایا کے شغل میں گزرا اَور عرب کو قرآن کے قریب آنے کا موقع نہ ملا۔ کچھ مدت صلح حدیبیہ کے بعد اَور کچھ فتح مکہ کے بعد ایسی ہے جو چار پانچ سال سے زیادہ نہیں کہ قرآن کو عرب پر اَثر اَندازی کا موقع مِلا لیکن ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ عرب بعد القرآن کو عرب قبل القرآن سے کوئی نسبت ہی نہیں رہی،اِتنی کم مدت میںقرآن نے عرب کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ عرب کو قرآن نے ایسا فیض بخشا کہ وہ ایک ایسی قوم بن گئی جو تنظیم،اِتحاد ،اَخلاق، بلند خیالی، اُولوالعزمی، اِیثار،قربانی، خدا پرستی، شجاعت، سخاوت، قناعت، عفت، پاکدامنی، عدل و اِنصاف، اَمانت و دیانت میں بے مثال ہواِسی طرح جہانگیری و جہان بانی میں بھی بے نظیرہوگئی۔ رحمت و شفقت، عقل و تدبر، پابندی عہد و قول، راست بازی میں کوئی قوم اِن کی ہمسر نہ پہلے گزری اَور نہ آئندہ ممکن ہے یہاں تک کہ اِنسانیت کی پوری تاریخ اِن کے اَخلاق اَور خوبیوں کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے یہی وجہ تھی کہ اِن آٹھ کمزوریوں کے باوجود جو ہم نے ذکر کیں، اُنہوں نے بیک وقت دُنیا ئے شرق و غرب کی دو عظیم متمدن اَور ہزاروں سالوں کی مستحکم سلطنتوں'' کسریٰ '' و '' قیصر'' سے ٹکر لی اَور اِن دونوں عظیم حکومتوں کو غبار بنا کر رکھ دیا(حالانکہ) اِن میں سے ہر حکومت دُنیا میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔ اَب سوال یہ ہے کہ یہ معجزانہ اَور اَسبابِ مادّیہ کے خلاف سیاسی غلبہ جوعرب کو حاصل ہوا جس کی طوفانی موجیں شرق میںکا شغر اَور دیوارِ چین سے ٹکرائیں اَور مغرب میں مراکش اَور اَلجزائر ہسپانیہ اَور فرانس تک پہنچیں، اُس کے اَسباب یا مادّی ہوں گے یا رُوحانی و غیبی۔ پہلا سبب جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، عرب کو حاصل نہ تھا بلکہ عرب کی حریف اَور دُشمن طاقتوں کو حاصل تھا تو مجبوراً اِقرار کرنا پڑے گا کہ یہ رُوحانی قوت کا کرشمہ تھا جو قرآن کے فیض سے عرب کو حاصل ہوا جس سے قرآن کی سیاسی عظمت و تفوق بخشی ہوئی اَوراُس کی مقناطیسی قوت تاریخی واقعات سے مدلل طور پر ثابت ہوگئی۔ ( بیالس برس قبل یہ مضمون ماہنامہ اَنوار ِ مدینہ میں شائع ہو چکا ہے، ج ٢ شمارہ ١ تا ٣ ١٣٩١ھ /١٩٧١ء )