ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
ہوسکے لیکن عرب کا ہر قبیلہ دُوسرے کا دُشمن تھا۔ اَنصار ِمدینہ کے دو قبیلے'' اَوس'' و '' خزرج ''آپس میں دُشمن تھے اَور برسہا برس ایک دُوسرے سے لڑتے رہے تھے۔ (٥) پانچویں چیز ''زراعت'' ہے تاکہ ضروریاتِ زندگی میں مُلک خود کفیل ہوسکے اَور غذائی ضروریات مہیا ہوں لیکن غذا میں عرب غیر اَقوام کے محتاج تھے۔ خرما ١ کے سوا اِن کے پاس کچھ بھی نہ تھااَور وہ بھی صرف بعض علاقوں میں تھی۔ اِس لیے قرآن نے حجاز کے متعلق فرمایا ہے ( بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ ) یعنی وہ زمین جو بِن کھیتی والی ہے۔ (٦) چھٹی چیز'' معدنی دولت'' ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب میں کسی معدنی دولت کا وجود نہیں تھا، اَب جو کچھ عرب میں نظر آرہا ہے وہ دَورِ حاضر کی پیداوار ہے۔ (٧) ساتویں چیز ''جسمانی قوت'' ہے۔ عرب گرم مُلک تھاضروری غذا بھی میسّر نہ تھی، پانی کی بھی کمی تھی، سردی اَور گرمی سے بچنے کے لیے نہ ضروری مکانات تھے اَور نہ مناسب لباس، اکثر آبادی خانہ بدوشوں کی تھی جو چھولداریوں ٢ میں رہا کرتی تھی، بیمار ہوتے تو نہ کوئی علاج تھا نہ مناسب غذا، اِن حالات میں اُن کے اَجسام عام اَقوام کے مقابلہ میںنہایت نحیف، کمزور اَور ضعیف تھے۔ (٨) آٹھویں چیز ''اَخلاقی قوت'' ہے، رُوحانی اَور اَخلاقی قوت توحید سے حاصل ہوتی ہے اَور یہ اعلیٰ اَور پاکیزہ عقیدہ ہی رُوح کو قوت بخشتا ہے لیکن عرب آبادی پتھروں کے تراشے ہوئے بتوں کی پرستش کرتی تھی جس کی وجہ سے اَخلاقی اَور رُوحانی قوت سے بھی محروم تھی۔یہ حالات تھے جب عرب میں قرآن کا نزول ہوا، مکّی زندگی کے تیرہ سالہ عرصہ میں قرآن کی آواز کفارِ مکہ کے جور و ستم کی وجہ سے دَبی رہی کیونکہ قرآن کی دعوت اَور اُس کا سننا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ١ کھجور ٢ چھوٹے خیمے