ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
مہمانِ خصوصی ہانگ کانگ کے گورنر کریس پیٹن تھے۔قاری صاحب فرماتے ہیں کہ تقریب کے بعد ریفریشمنٹ کے دَوران گورنر نے میرے پاس آکر حال اَحوال دَریافت کیا اَور پوچھا کہ آپ اِمام ہیں ،اِمام بننے کے لیے آپ نے کیا پڑھا ہے ؟ میں نے قرآنِ کریم ،تفسیر وحدیث کی کتب کا نام لیا،اِس کے بعد اُس نے پوچھا کہ کیا آپ نے ''ہدایہ'' پڑھی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! اُس نے مجھ سے ہدایہ کے مختلف مقامات کا اِمتحان لینا شروع کر دیا۔میں اُس کی گفتگو سُن کر بہت حیران ہوا تو اُس نے مجھے بتایا کہ میں نے ہدایہ پر پی ایچ ڈی کی ہے اَور آکسفورڈ سے اِس پر باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے،یہ آپ لوگوں کے لاء اَور قانون کی ایسی عمدہ کتاب ہے جس کی مثال نہیں ملتی مگر اَفسوس یہ ہے کہ تم لوگوں نے اِسے کہیں نافذ نہیں کیا،آج اَگر یہ کسی جگہ نافذ ہوتی تو پتا نہیں یہ لاء کتنا اِرتقائی دَرجہ اِختیار کرتا ! کتنے نِت نئے عملی دَروازے کھلتے ! ''یہ اِقتباس عالِم غیر عالم بلکہ اَدنیٰ درجہ کے ہر اُس مسلمان کے لیے جو اپنے اَندر تھوڑا سا بھی نورِ ایمانی رکھتا ہوایسا آئینہ ہے کہ جس میں اِسلام کی عظمت ِ رفتہ کی جولانیوں کاعکس دیکھا جا سکتا ہے۔ ''جادُو وہ جو سر چڑھ کر بولے'' کے مصداق یہ ایسا غیر جانبدار''اِعترافی آئینہ'' ہے جس میں جھانک کر آشنا اَور غیر آشنا دونوں ہی سردُھنتے رہ جائیں ۔ اَفسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذہبی طبقہ ہی نہیں بلکہ حاملینِ دین اِسلام میں بھی ایسے بھولے بھالوں کی ایک معتد بہ تعداد ایسی بھی ہے جو یہ خیال کرتی ہے کہ اگر اِسلامی نظام نافذ کرنے والے برسرِاِقتدار آ بھی گئے تو اِتنے جج کہاں سے لائیں گے جو عدالتوں کا نظام سنبھال کر فیصلے صادِر کرسکیں۔بڑے حضرت رحمة اللہ علیہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے کہ چند ایسے علماء جو ہدایہ پڑھے ہوئے ہوں پورے لاہور کی آبادی کے لیے بطورِ جج کافی ہو سکتے ہیں ۔