ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
سیرتِ صدیقی کے خلاف کوئی حکم دُوں تو تم کیا کرو گے ؟ لوگ کچھ نہ بولے پھر دوبارہ آپ نے یہی اِرشاد فرمایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا اَور کہنے لگا فَعَلْنَا ھٰکَذَا یعنی اِس طرح تلوار سے سر کاٹ دیں گے اِس پر آپ رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے۔'' ٭ خلیفہ ہوتے ہی عام اِجازت دی کہ میری جو بات قابلِ اِعتراض ہو سرِ دَربار مجھے ٹوک دیا جائے، آپ کی طرف سے اِعلان کردیا گیا کہ اَحَبُّ النَّاسِ اِلَیَّ مَنْ رَفَعَ اِلَیَّ عُیُوْبِیْ یعنی سب سے زیادہ میں اُس شخص کو پسند کروں گا جو میرے عیبوں پر مجھے اِطلاع دے۔ اِس اعلان کے بعد اَدنیٰ اَدنیٰ لوگوں نے سرِ دربار آپ پر نکتہ چینی شروع کی، اگرچہ وہ نکتہ چینی غلط ہوتی تھی مگر آپ اِس پر خوش ہوتے تھے اَور بڑی توجہ سے سنتے تھے اَور اُس کا جواب دیتے تھے۔ ٭ تواضع کی صفت آپ میں اِس قدر تھی کہ اِس کا اَندازہ کرنے سے عقلِ اِنسانی عاجز ہے۔ عرب و عجم کا بادشاہ بلکہ بادشاہوں کا فرمانروا اَور اُس میں اِس قدر تواضع۔ ٭ خلیفہ ہونے کے بعد منبر پر گئے تو منبر کے اُس زینے پر بیٹھے جس پر حضرت صدیق پاؤں رکھتے تھے۔ لوگوں نے کہا اُوپر بیٹھیے تو فرمایا میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اُس مقام پر جگہ مِل جائے جہاں صدیق کے پاؤں رہتے تھے۔ شروع میں لوگوں نے آپ کو خلیفۂ رسول کہنا چاہا تو فرمایا میں اِس قابل نہیں ہوں اَور اَپنے لیے ایک سادہ لفظ اَمیر المو منین پسند فرمایا۔ یہ لفظ سب سے پہلے آپ کے لیے ہی اِستعمال ہوا۔ علمی کمالات کا ذکر ہوتاتو کبھی اَپنا شمار کسی دَرجہ میں نہ فرماتے دُوسروں کا حوالہ دیتے حالانکہ بشہادتِ نبوی ۖ خود سب سے اَعلم ١ تھے ۔ایک روز خطبہ میں اِرشاد فرمایا کہ جس کو قرآن شریف کے ١ صحیح بخاری اَور صحیح مسلم میں باسا نید متعددہ مروی ہے کہ رسولِ خدا ۖ نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے دُودھ پیا اَور اَپنا بچا ہوا دُودھ عمر بن خطاب کو دیا۔ لوگوں نے پوچھا حضرت اِس کی تعبیر کیا ہے ؟ فرمایا علم ۔علاوہ اِس کے جس قدرتفاسیر آیاتِ قرآنیہ کی تعلیم مسائل فقہیہ کے متعلق اِن سے منقول ہیں وہ خود اِن کے اَعلم ہونے کی دلیل ہے۔