ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2013 |
اكستان |
|
سے اِعتراض کی بھر مار ہوتی ہے۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ میاں کچھ نہیں اَب رشتہ دَاروں میں آپس میں محبت ہی نہیں رہی، دُوسرے صاحب بھی اَینٹھ گئے کہ اُن کے گھر جائیں تو کیا دِیواروں سے بولیں ؟ اَب ہم اُن کے یہاں جانا ہی بند کردیں گے ۔کیا عزیزو (رشتہ دَاروں) کے تعلقات اَور آپس کا میل جول بے پردگی ہی پر موقوف ہے ؟ اَور اگر( بالفرض یہ پردہ تعلقات قائم رکھنے میں رُکاوٹ اَور) مانع ہے تو نعوذ باللہ ! اللہ پر اِعتراض ہے کہ ایسے قریبی رشتہ دَاروں کو بھی نامحرم قرار دے دیا۔ مگر بعض (دِیندار عورتیں) ایسی ہمت والیاں بھی ہیں چاہے کوئی ہو وہ کسی نامحرم کے سامنے نہیں آتیں چاہے کوئی برا مانے یا بھلا مانے۔اَور اَکثر جگہ تو پردہ کی ایسی کمی ہے کہ محرمیت نہیں (یعنی ایسے رشتہ دَار نہیں جن سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہوتا ہے بلکہ) کچھ نہیں دُور دُور کے رشتہ دَاروں کو بے تکلف گھر میں بلا لیتی ہیں اَور بے محابا (بے جھجھک بے پردہ ہو کر) آجاتی ہیں یہ بالکل ناجائز اَور سخت گناہ ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اُنہیں تنبیہ کریں اَور سب نامحرموں سے پردہ کرائیں ،اگر کسی کو ناگوار ہو تو بَلا سے کچھ پرواہ مت کرو، ہرگز ڈھیلا پن نہ بر تو بلکہ مردوں کو چاہیے کہ اگر کوئی نامحرم رشتہ دَار عورت (جن سے رشتہ جائز ہو سکتا ہو) اِن سے پردہ نہ کرے تو خود اُس سے چھپا کریں اَگر کوئی برا مانتا ہے توکچھ پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ برامان کر کوئی کرے گا کیا ،اچھا تو ہے سب لوگ چھوڑدیں کوئی اَپنا نہ رہے اِسی طرح مخلوق سے تعلق گھٹے۔ جب کوئی اَپنا نہ رہے گا اَور سب توقع ختم ہوجائے گی تب تو سوچے گا کہ (اَعزہ ،اَقربائ، یار دوست یہ سب حجاب تھے اَب کوئی حجاب نہ رہا اَب خدا کے بنو جتنے تعلقات کم ہوں اُتنا ہی اچھا ہے اَور بھائی یہ تو سو چو کہ کسے کسے راضی کرو گے ،راضی تو ایک ہی ہوتا ہے کئی تو راضی ہوا نہیں کرتے۔ تو حضرت ! یہ کیجیے کہ صرف اللہ کو راضی رکھیے بہت سے آدمیوں کو کہاں تک راضی رکھیے گا۔ (اللہ تعالیٰ جب راضی ہوگا تو وہ خود دُوسروں کو بھی راضی کردے گا اَور آپ کی محبت لوگوں کی دِل میں پیدا کردے گا) ۔( اِصلاح المسلمین ص ٤٥٦ )