ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرمان و محترمان بہی خواہان مدارسِ عربیہ ومکاتب ِدینیہ اَلسلام علیکم ورحمةاللہ وبر کاتہ اللہ پاک کا شکر ہے بندہ بعافیت ہے، اُمید ہے کہ آپ حضرات بھی بعافیت ہوں گے۔ عرصہ سے طبیعت پر یہ تقاضا ہے کہ ہمارا مسلم بچہ اسکولوں میں خصوصًا غیروں کے اسکولوں میں جا کر واہی تباہی میں پڑھ کر دین سے دُور اَور ضائع ہو رہا ہے، مقتدایانِ اُمت کو خصوصًا عام علماء کو عمومًا اِس کی طرف خاص توجہ اَور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ بندے کے اِس سلسلے میں مکاتیب پہلے بھی شائع ہو چکے جن کو مختلف رسائل نے بھی شائع کیا اَور اللہ کے کرم سے اِس سے ترغیب پاکر بہت سی جگہ پر مکاتب قائم کرنے کی طرف توجہ ہوئی اَور اللہ کا کرم ہے کہ بہت سی جگہ یہ سلسلہ شروع ہوا۔ مکتب میں بچے کی بسم اللہ شروع کر نے کے متعلق ایک قصہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا میرا بھانجا عزیز جعفراُستاذ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور بیان کرتا تھا اُس کو بندے نے بھی مختلف جگہ بیان کیا، بندے کو بھی یہ خیال بار بار آیا اَور بعض تعلق والوں نے بھی اِس کی طرف متوجہ کیا کہ اگر بندے کے دونوں مکاتیب کے ساتھ اِس کو بھی شائع کیا جائے تو اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ مکاتب کے قیام کی ترغیب میں مفید ثابت ہوگا تو اللہ کا نام لے کر آج مسجد نبوی علی صاحبہا الف الف تحیة وسلام میں بیٹھ کر اِس کو لکھوا رہا ہوں تاکہ یہاں کی برکات بھی اِس میں شامل ہوں۔ یہ قصہ قاری شریف صاحب (کراچی) کی کتاب ''راہ ِ نجات'' میں طبع ہوا جو پہلے پڑوسی ملک میں طبع ہوئی اَور اِس کے بعد مکتبہ مدنیہ متصل سفید مسجد دیوبند نے ہندوستان میں طبع کیا۔ اِس میں سے اُس قصے کو نقل کراتا ہوں :