ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
اِس کی ستر پوشی کرے، اَور کسی چور کو گرفتار کرتا ہوں تو اُس وقت بھی یہی خواہش دِل میں پیدا ہوتی ہے۔ اللہ اکبر ! کس قدر شفقت خلق اللہ پر تھی۔ (٥) فرمایا کہ اللہ کی قسم ! مجھے کبھی خلافت کی خواہش نہ تھی ،نہ میں نے کبھی اللہ سے اِس کو طلب کیا ،نہ پوشیدہ نہ آشکارا۔ (٦) ایک روز ایک پرندہ کو آ پ نے درخت پر دیکھا توفرمایا : اے پرندے ! تجھے خوشی ہو اللہ کی قسم میرا دِل چاہتا ہے کہ میں بھی تیرے مثل ہوتا تو جس دَرخت پر چاہتا ہے بیٹھ جاتاہے اَور جو پھل چاہتا ہے کھا لیتا ہے اَور تیرے اُوپر نہ کوئی حساب ہے نہ عذاب۔ اے کاش ! میں سڑک کے کنارے کا درخت ہوتا اَور کسی اُونٹ کا میرے اُوپر گزرہوتا اَور وہ مجھے اَپنے منہ میں رکھ کر چبالیتا پھر میں مینگنی بن کر نکل جاتا، اِنسان نہ ہوتا۔ اللہ رے ! خوف ِخدا۔ (٧) ایک مرتبہ ایک شکار آپ کے سامنے لایا گیا تو فرمایا کہ جب کوئی شکار مارا جاتا ہے یا کوئی درخت کاٹا جاتا ہے تواُس کاسبب یہی ہوتا ہے کہ اُس نے اللہ کی تسبیح ضائع کردی۔ (٨) بسا اَوقات اُونٹ پر سوار ہوتے اَور مہار گرجاتی تو اُونٹ کو بٹھلا کر اُترتے اَور مہار کو خود اُٹھاتے ،لوگ کہتے کہ حضرت آپ نے ہمیں کیوں نہ حکم دیا ہم اُٹھا دیتے تو فرماتے کہ میرے حبیب ۖ نے مجھے حکم دیا ہے کہ کسی اِنسان سے کچھ سوال نہ کرو۔ (٩) عبداللہ بن حکیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک روز حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا جس میں حسب ِ ذیل اِرشادات تھے۔ اے لوگو ! میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اَور اللہ کی تعریف ایسی کرو جس کاوہ سزاوار ہے اَور اُمید و خوف دونوں کو ملحوظ رکھو اَور دُعا مانگنے سے ساتھ اِلحاف ١ بھی اِختیار کرو، دیکھو خدا نے زکریا علیہ السلام اَور اُن کے گھروالوں کی تعریف میں فرمایا : ١ ''اِلحاف'' کے معنٰی ہیں چمٹ جانا، تم نے دیکھا ہوگا کہ بھکاری فقیر چمٹ جاتے ہیں، بے لیے پیچھا نہیں چھوڑتے، دُھونی رما کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اِس قدر لے کر ہٹیں گے۔