ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
میں جہاں تعلیم پر بڑی رقم خرچ ہوتی ہے وہاں کا ماحول عام طور سے بہتر نہیں ہوتا مخلوط تعلیم دی جاتی ہے ایسی ایکٹی وٹیز (Activities)جاری رکھی جاتی ہیں، جو طلباء کو ایسے کاموں پر آمادہ کرتی ہیں جو تعلیم یافتہ شخص کے لیے مفید نہیں ہوتیں۔اِس کے علاوہ ایسے اسکولوں میں بدقسمتی سے اَخلاقی و دینی مضامین یا تو سرے سے پڑھائے ہی نہیں جاتے یا پھر اُن پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نئی نسل میں مثبت رُجحان پیدا کرنے کے لیے اَور اُنہیں زیادہ سے زیادہ اِیماندار بنانے کے لیے ایسی تعلیم کو رواج دینے کی ضرورت ہے جو اُنہیں پورے طور پر صاحب ِ کردار شخص بنادے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء ہمیشہ سچ بولتے دکھائی دیں، بھولے سے بھی وہ جھوٹ نہ بولیں، خوش خلقی سے لوگوں کے ساتھ پیش آئیں، چھوٹوں سے محبت کا سلوک کریں اَور بڑوں کے لیے اپنے دِل میں اِحترام رکھیں۔ اگر کوئی مدد کا طالب ہو تو اُس کی مدد کریں۔ تعلیم یافتہ لوگ پورے طورپر معاشرہ کے لیے آئیڈیل ہوں۔ اگر کسی سے بات کریں تو اُن کی زبان پر معیاری الفاظ ہوں ،چہرہ پر مسکراہٹ ہو اَور نرم لہجہ ہو، اگر تجارت کریں تو دیانت داری کا ثبوت دیں، وعدوں کو پورا کریں، معاملات کو صاف رکھیں، حلال طریقہ سے رزق حاصل کریں، رزق کے حصول میں نہ جھوٹ بولیں، نہ رشوت لیں، نہ ملاوٹ کریں اَور نہ کسی کی رقم کو اپنے پاس رکھیں، مزدور کی اُجرت اُس کے پسینہ سوکھنے سے پہلے اَدا کریں۔ اُن کی سماجی زندگی بھی آئینہ کی طرح صاف ہو، کوئی مذموم فعل اُن سے سر زد نہ ہو۔ اِن تمام چیزوں کا بہتر طور پر اُسی وقت خیال رکھا جا سکتا ہے جبکہ تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین کو شامل کیا گیا ہو جو اِنسان کو اِنسانی و اَخلاقی اِقدار کی تعلیم دیتے ہیں۔ عہد ِحاضر میں جبکہ جدّ ت کے نام پر ہرطرح کی بے راہ روی دیکھنے کو مِل رہی ہے، اَخلاقی تعلیم کی ضرورت اَور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اَخلاقی تعلیم کے ساتھ اگر دینی تعلیم بھی اسکولوں و کالجوں میں دی جانے لگے تو اِس کے بڑے مثبت فوائد سامنے آئیں گے کیونکہ'' مذہب'' اِنسانی زندگی کے لیے اِنتہائی اہم ہے، وہ ہمیشہ اِنسان کو اچھی باتوں کا دَرس دیتا ہے۔ مذہب کا مطمح ِ نظر ہی اِنسان کی کامیابی ہے۔ اِس لیے وہ اِنسان کی کامیابی کے