ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
میں اِنسانی و اَخلاقی معاملات پر مشتمل اَسباق نہیں پڑھائے جاتے، بلکہ دَولت کمانے، سیر وتفریح کرنے اَور زندگی کو تعیشات کے ساتھ گزارنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں جس کے سبب طلباء کا ذہن شروع سے ہی مادّی خواہشات کی تکمیل کی طرف مائل ہوجاتا ہے، فارغ ہونے کے بعد اُن کا سب سے پہلا مقصد اُونچی عمارتیں یا کشادہ کوٹھیاں بنانے کا ہوتا ہے، اے سی گاڑیوں میں چلنے اَور شاندار ماکولات و مشروبات کے اِستعمال کا خواب بھی اُن کے لیے اہم ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے چل کر اُنہیں وعدہ خلافی، عہد شکنی اَور کذب گوئی کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ جب سے تعلیم کو برائے تجارت بنایا گیا ہے اُس وقت سے تعلیم مہنگی ہو گئی ہے اَور تجارتی ذہن رکھنے والوں میں تعلیمی اِداروں میں قدرے اِنویسٹمنٹ کر کے خطیر رقم کمانے کی خواہش بیدار ہوئی ہے عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میںماہانہ فیس خاصی زیادہ ہوتی ہے میڈیم درجے کے اسکولوں میں ماہانہ فیس ہزاروں میں ہے، ایڈمیشن کے نام پر، اِیگزام کے نام پر،ڈویلمنٹ چار جز کے نام پر، سکیورٹی کے نام پر، سالانہ چارجز کے نام پر جو خطیر رقم والدین سے لی جاتی ہے وہ علیحدہ ہے۔ یورنیفارم، کتابوں اَور کاپیوں اَور اسٹیشنری کے نام پر بھی والدین کو اچھے خاصے روپے خرچ کرنے ہوتے ہیں مجموعی طور سے متوسط معیار کے اسکولوں میںفی بچہ سالانہ 40 سے 50 ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اگر اُن سے بھی بہتر اسکولوں واِداروں میں تعلیم حاصل کی جاتی ہے تو اَخراجات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اِس کے بر عکس ایسے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا جہاں فی طالب علم دو سو روپے چار سو روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہوں وہاں بچوں کے کیریر کے خراب ہونے کا اَندیشہ رہتا ہے ۔تجارت پر مبنی تعلیمی نظام سے کئی نقصانات سامنے آئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تعلیم مہنگی ہوگئی، دُوسرے معیاری تعلیم حاصل کرنا متوسط آمدنی والے لوگوں کے بس سے باہر کی بات ہے، تیسرے یہ کہ اَعلیٰ اسکولوں وکالجوں میں حصولِ تعلیم کے بعد مادّی لحاظ سے توبچوں کے مستقبل کے بہتر ہونے کے اِمکانات روشن ہوجاتے ہیں مگر رُوحانی ،اَخلاقی اَور اِنسانی اِعتبار سے اُن کے زوال پزیر ہوجانے کے خدشات لاحق ہوجاتے ہیں کیونکہ اِس طرح کے اسکولوں