ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
ہندومسلمان سب شامل تھے۔ میانجی منے شاہ نے ١٣١٠ھ/ ١٨٩٤ء میں وفات پائی، بندگی شاہ محمد عمر کے قبرستان میں مرزا ہے۔ مولانا فضل الرحمن عثمانی : (وفات ١٣٢٥ھ۔١٩٠٧ئ) دارُالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے مجلس ِ شوریٰ کے آخر عمر تک رُکن رہے۔ دہلی کالج میں تعلیم حاصل کی تھی، فارسی اَور اُردو کے بلند پایہ شاعر تھے۔ خانقاہ و مدرسہ سرائے پیر زادگان کا ذکر پہلے گزر چکا ہے طلباء اَور رُوحانی مستفیضین کی تعداد کی کثرت کی بنا پر اُس کے نام اَوقاف تھے لیکن ایک حادثہ عظیمہ کے بعد اِس کا احیاء ١ نہ ہو سکا تھا اِس کے بعد آخری زمانہ میں دیوبند میں قدیم طرز کے صرف تین مدرسوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایک مدرسہ مولوی مہتاب علی ٢ کا تھاحضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی عربی تعلیم کا آغاز اِسی مکتب سے ہوا تھا۔ دُوسرا مدرسہ میاں جی اِمام علی کا تھا جو اِمام بخش صہبائی کے شاگرد تھے اَور تیسرے مدرسہ میں جو بحال سنگھ مصر رئیس دیوبند کے مکان پر جاری تھا، دیوبند کے مشہور بزرگ میاں جی منے شاہ پڑھاتے تھے۔ اِن مدرسوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بچے بھی پڑھا کرتے تھے۔ فَقَطْ ھٰھُنَا تَمَّ مِنَّا الْکَلَامُ عَلٰی مُصْطَفٰنَا اَلُوْفُ السَّلَامُ خودی کو کر بلند اِتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ١ اَب سیّد اِبراہیم رحمة اللہ علیہ کی اَولاد سرائے سے شہر میں آباد ہو چکی ہے، صرف دو ایک گھر باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی خستہ حال اَور روایات ِ سلف سے عاری۔ ٢ مولانا مہتاب علی صاحب (وفات ١٢٩٣ھ ) مولانا ذوالفقار علی کے بڑے بھائی حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے تایا جان تھے۔ تیرھویں صدی ہجری کے اَوائل میں دیوبند کے رئیس شیخ کرامت حسین کے دیوان خانہ میں جو مدرسہ قائم تھا اُس میں عربی پڑھاتے تھے، دارُالعلوم قائم کرنے کے لیے پہلا چندہ حاجی محمد عابد صاحب کا تھا اَور دُوسراچندہ اِن ہی مولانا مہتاب علی صاحب نے دیا ۔قیامِ دارُالعلوم کے بعد اُس کی مجلس شوریٰ کے رُکن قرار پائے۔