ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
اُن کے کارناموں کا سراغ تو لگ سکتا ہے مگر تفاصیل جمع ہونی مشکل ہیں۔ باہم ایک دُوسرے سے کیسے رابطہ رہا، بجز خدائے تعالیٰ کے کوئی کیا جانے۔ شَکَرَ اللّٰہُ مَسَاعِیْھِمْ وَ تَغَمَّدَھُمْ بِرَحْمَتِہ وَرِضْوَانِہ وَاَسْکَنَھُمُ الْفِرْدَوْسَ الْاَعْلٰی مِنْ جَنَانِہ آمِیْن ۔ بہرحال یہ علمی مرکز دارُالعلوم دیوبند کس طرح قائم ہوا جس میں ایسے بزرگ پیدا ہوئے اُس کا کچھ خاکہ اَگلے مضمون میں پیش کیا جائے گا۔ اِس سے قبل مناسب ہے کہ یہاں دیوبند کے اُس دَور کے اُن معروف علماء و بزرگ حضرات کا تذکرہ بھی مختصرًا کر دیا جائے کہ جن کی پیدائش یا عمر کا معتد بہ حصہ تیرھویں صدی میں گزرا ہے کیونکہ یہاں تک دیوبند کے بارہویں صدی کے بزرگوں کااِجمالاً کچھ ذکر آچکا ہے۔ حضرت مولانا رفیع الدین : (وفات ١٣٠٨ھ/ ١٨٩٠ئ) حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی (١٢٩٦ھ/ ١٨٧٨ئ) کے مشہور خلفاء میں تھے، گو علمی حیثیت بہت معمولی تھی مگر اَپنے زمانے کے اَولیائے کاملین میں اِن کا شمار ہوتا تھا، اِسی کے ساتھ اِنتظامی اُمور کا زبردست ملکہ حاصل تھا عرصہ تک دارُالعلوم کے مہتمم رہے (تقریبًا ١٩ سال) آپ کے زمانے میں دارُالعلوم نے بڑی ترقی کی، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن آپ سے مجاز تھے، مدینہ منورہ میں وفات ہوئی اَور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ آپ ہی کا واقعہ ہے کہ جب ١٣٩٤ھ میں نو دَرے کی عمارت کی جو موجودہ عمارتوں میں سب سے پہلی عمارت ہے، بنیاد کھدائی گئی تو آپ نے خواب دیکھا کہ '' اِن نشانات پر تعمیر کی جائے '' مولانا نے صبح اُٹھ کر دیکھا تونشانات موجود تھے چنانچہ اُن ہی نشانات پر بنیاد کھدواکر تعمیر شروع کروائی گئی ۔(تاریخ ِدیوبند ص ٧٦ و ص ٣٨٣) اَور شیخ بلند بخت شہید ِ بالاکوٹ آپ ہی کے چچا تھے۔ رحمہم اللہ۔