ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
والد ماجد قدس سرہ نے ''اَلجمعیة'' کے ''مجاہد ِ ملت نمبر'' میں تحریر فرمایا ہے کہ ''آخری دَور تک تمام معلومات رَاز میں رکھی جایا کرتی تھیں، کسی کا ر روائی کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا۔'' مجاہد ملت نمبر حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ کی وفات پر شائع ہوا تھا۔ ''حضرت شیخ الہند قدس سرہ نے ١٨ ربیع الاوّل ١٣٣٩ھ/ ٣٠ نومبر ١٩٤٠ء کو وفات پائی، آپ کو ڈاکٹر اَنصاری مرحوم کی کوٹھی پر جب غسل کے لیے لٹایا گیا تو پیٹھ بالکل سیاہ ہو رہی تھی اَور اُس پر نشانات تھے لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ کیونکر ہوئے۔ آپ کے اُن رفقاء نے جو اَسارت ِ مالٹا میں ساتھ تھے بتلایا کہ یہ نشانات اُن دُرّوں کے ہیں جو اَسارتِ مالٹا میں آپ پر پڑتے رہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ شیخ الہند نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ میرے سامنے اُن مصائب کا جو مجھ پر ٹوٹ رہے ہیں کبھی ذکر نہ کرنا۔'' (شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مصنفہ ڈاکٹر اِقبال حسن خان پی ایچ ڈی ص ١٥٣ ) حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے اِخفا کا یہ حال تھا کہ کتمانِ حسنات ١ طبیعت ِثانیہ تھا تو ایسی صورت میں اُن کے کارنامے اَور بھی مستور رہے نیز جب وہ اَسارت سے رہا ہوئے تو وہ ہی اَنگریزی دَور تھا اَور تحریک جاری تھی اَور حضرت کے جوش ِ جہاد کا وفات تک یہی حال تھا کہ اُسی دِن جس شام کو وفات ہوئی ذرا گفتگو کی قدرت ہوئی تو اِرشاد فرمایا : ''مرنے کا تو کچھ اَفسوس نہیں، تمنا تو یہ تھی کہ میں میدانِ جہاد میں ہوتا اَور اعلائے کلمة الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے کیے جاتے ۔'' (اَیضًا صفحہ ١٥٣) کوئی ایسی فضاء اُن کشتگانِ تسلیم و رضا کو میسر نہیں آسکی جہاں سب مل بیٹھتے، مراکز جو خفیہ تھے خفیہ ہی رہے اَور اُن حضرات کی یہ نیکیاں جزائِ یومِ قیام میں محض رضائِ ربِ اَنام کے لیے محجوب رہیں ٢ ١ اپنی نیکیوں کو چھپائے رکھنا ٢ یعنی دُنیا میں اِن کے کارنامے لوگوں پر ظاہر نہ ہو سکے اَلبتہ یہ حجاب اللہ کی رضا کا ذریعہ بنے گا۔اِنشاء اللہ۔